اسلام آباد(وقائع نگار)اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس عامرفاروق پرمشتمل ڈویڑن بنچ نے ایف بی آئی کے الرٹ پر فنانشل ٹیررزم اور کرپٹو کرنسی کی تجارت میں ملوث گرفتار ملزم حافظ محمد اصغر کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔گذشتہ روز سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ نے عدالت کو بتایاکہ14اگست کو دہشت گردی کا منصوبہ بنایا گیا تھا،پٹیشنر انڈیا میں 32 لوگوں کے ساتھ رابطہ میں تھا،امریکی ایجنسی ایف بی آئی نے الرٹ جاری کیا جس کے بعد ملزم کی گرفتاری عمل میں آئی،درخواست گزار وکیل شیرافضل مروت نے کہاکہ پٹیشنر کا تعلق لیہ سے ہے اور اسلام آباد کا رہنے والا ہے،چار الزامات لگائے گئے، یہ تو بتائیں کہ میں کس سے مل کر دھماکا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا؟میرے کلاس فیلوز بھی انڈین ہیں جن سے میں رابطے میں ہوں، کیا یہ جرم ہے،ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ فنانشل ٹیرارزم کا معاملہ ہے، انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نامکمل چالان داخل کرا دیا گیا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ ایک اور ملک کی ایجنسی نے الرٹ جاری کیا، پٹیشنر کے پاس 64 کروڑ روپے بھی نکلے، یہ معمولی بات نہیں،درخواست گزار وکیل نے کہاکہ پٹیشنر بٹ کوئین کا کاروبار کرتا ہے، 22 سے 23 کروڑ روپے کے بٹ کوئین چوری بھی کر لیے گئے،ایک ایک کمپیوٹر کی مالیت 25 سے 30 لاکھ روپے ہے، وہ بھی قبضہ میں لیے گئے،ایف آئی اے حکام نے کہاکہ کمپیوٹرز کا فرانزک کرا لیا گیا ہے،شیرافضل مروت ایڈووکیٹ نے کہاکہ فیصل آباد کے رہائشی کو کرپٹو کرنسی فروخت کی، اسے بھی شریک ملزم بنایا گیا،کون سی فرانزک رپورٹ یہ کہتی ہے کہ میں نے کوئی جرم کیا ہے؟،غوری ٹاؤن کے ایک کیبل نیٹ ورک کا آئی پی ایڈریس سامنے آیا ہے جبکہ پٹیشنر کے پاس نیا ٹیل کا کنکشن ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ کرپٹو کرنسی کے بارے میں کسی نے نہیں کہا کہ وہ ریاست کی کرنسی ہے،کرپٹو کرنسی کی تجارت کوئی جرم تو نہیں ہے، یہ ٹریڈ ایبل کموڈیٹی ہے،وکلائ کے دلائل۔مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔