سقوط ڈھاکہ : نئی نسل کیلئے کچھ اسباق 


سانحہ سقوط ڈھاکہ کو گزرے تقریباًپچاس سال ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود دسمبر آتے ہی یہ زخم دوبارہ تازہ ہوجاتے ہیں ۔ملک کے طول و عرض میں پھر سے اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ اس سانحہ کی وجوہات کیا تھیں اور کس طرح سے مزید ایسے کسی سانحہ سے بچا جا سکتا ہے ۔ یقیناً بحث تبھی وہ ہوتی ہے جب دو فریقین میں مختلف قسم کی آراء پائی جاتی ہوں ۔ سانحہ سقوط ڈھاکہ پر بھی منفی او ر مثبت  آراء پائی جاتی ہیں ۔ کچھ لوگ اسے بھارتی سازش قرار دیتے ہیں توکچھ لوگ اپنے ہی جسم کو کاٹنے کے مصداق  سارا ملبہ محافظ اداروں پر ڈال کر اپنی ذمہ داریوں سے کنی کتراتے ہیں، کسی کے نزدیک علیحدہ ملک بنانے کی آواز بلند کرنے والا مجیب الرحمن غدار تھا تو کوئی اس کے مطالبات کی اس طرح حمایت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ پاکستان نے اس قوم کے تحفظات پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی، کسی کے نزدیک اس کا سبب اقتدار کی جنگ ہے تو کوئی اسے آمریت کے ساتھ جوڑ دیتاہے ۔غرض یہ کہ ہر ایک اپنے نظریہ کے مطابق اس سانحہ کی وجوہات کو تلاش کر لیتا ہے اور دلائل بھی تراش لیتا ہے ۔تاہم جس ایک چیز پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے وہ ہے کہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی وحدت کے خلاف نفرت کے جذبات کو ابھارا، بڑے پیمانے پر سازشیں کی گئیں اور عین موقع پر اپنی فوج بھی اتاری ۔ان الزامات کو بھارت میں تو اب سرکاری سطح پر بھی تسلیم کر لیا گیا ہے تاہم یہ درست ہے کہ یہ سب کچھ نہ ہوتا اگر ہم اپنی اندرونی کمزوریوں پر قابو پالیتے۔  یہ بھی درست ہے کہ قومیں تبھی درست سمت جا سکتی ہیں جب ماضی کے سانحات سے سبق سیکھا جائے ۔اگر ان وجوہات پر بات نہ ہو ، بحث نہ کی جائے تو شاید ایسے سانحات کینسر کی طرح وجود میں پلتے رہتے ہیں اور آخر کار پھر وہ وقت آجاتا ہے کہ جسم کی بقاء کے لیے اس حصہ کو کاٹ کر الگ کرنا پڑتا ہے ۔ یہ سانحہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ آدھی صدی گزرنے کے باوجود اس کا درد کم ہونے میں نہیں آرہا ۔ اس لیے اس کا تذکرہ مختلف انداز میں ہوتا ہے اور شاید ابھی بہت دیر تک ہوتا رہے گا۔ لیکن اس ساری بحث میں شاید ہم دانستہ یا غیر دانستہ طور پراپنی نوجوان نسل کے لیے کچھ واضح پیغام دینے میں ناکام رہتے ہیں بلکہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ابھی تک ہم خود بحیثیت قوم اس سانحہ کے سبب کا تعین نہیں کر سکے ۔ اس سے اختلاف ممکن نہیں کہ نوجوان ہماری ریڑھ کی ہڈی ہیں اور ہمیں ایک مثبت انداز میں انہیں تاریخ کے ان اوراق کا مطالعہ بھی کروانا ہے جس سے وہ اپنے کردار کے لیے کچھ اسباق حاصل کرسکیں ۔ پاکستان کا شمار جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد ساٹھ فیصد سے زائد ہے اور ملک کے مستقبل کا انحصار بھی انہی نوجوانوں کے کردار سے جڑا ہے تاہم جغرافیائی حیثیت ، بیرونی اثرات اور کچھ اندرونی عوامل نے نوجوانوں پر اس حد تک اثرات مرتب کیے کہ ان کا رجحان انتہا پسندی کی طرف ہونے لگا ۔2001کے بعد انتہا پسندی کی ایک بڑی لہرپاکستان کے نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ان حالات میںاس امر کی ضرورت اور بڑھ جاتی ہے کہ نوجوان نسل کو درست سمت کی طرف رہنمائی کے ساتھ ساتھ انہیں اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے اور پھر ان کے لیے ایک راہ عمل بھی متعین کی جائے تاکہ بات تھیوری سے نکل کر عملی کام کی طرف بڑھ سکے ۔
یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ ابھی دسمبربھی نہیں آیا تو اس سانحہ کا تذکرہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔ اس کی دو بڑی وجوہ ہیں ،اول اس وقت دنیا بھر بالعموم اور جنوبی ایشیا میں بالخصوص لوگوں کی بڑی تعداد ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ دیکھنے میں مصروف ہے ۔ اس ورلڈ کپ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں جنوبی ایشیا کے آٹھ ممالک میں سے چار ممالک کی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں ان میں بنگلہ دیش ، سری لنکا ، بھارت اور افغانستان شامل ہیں ۔ تاہم دنیا ئے کرکٹ میںبھارت اور پاکستان ہمیشہ کی طرح روایتی حریف کے طور پر سامنے آتے ہیں ۔ پاکستان اور بھارت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں بسنے والے لوگ جن کا تعلق اس خطے سے ہے وہ ان دونوں ممالک کے درمیان میچ کو بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہیں ۔ اس ورلڈ کپ میں بھی پاکستان اور بھارت کے میچ کو دنیا بھر میں اسی انداز سے دیکھا گیا لیکن موضوع کے متعلق بات یہ ہے کہ اس دفعہ پاکستان کی بھارت کے خلاف جیت پر جہاں پاکستانیوں اور کشمیریوں نے جشن منایا وہاں بہت ذیادہ خبریں آئیں کہ بنگلہ دیش کے لوگوں نے بڑی تعداد نے بھی پاکستان کی جیت پر جشن منایا بہت سارے لوگوں کی ویڈیوز منظر عام پر آئیں ، سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی ویڈیوز موجود ہیں جس پر بنگلہ دیشی نوجوان پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور پھر وہاں آتش بازی کی گئی۔ یہ ویڈیوز کم از کم اس بات کا ثبوت ضرور ہیں کہ بھارت اپنی تمام کوششوں کے باوجود بنگلہ دیشی نوجوانوں کے دلوں سے پاکستان کی محبت نہیں نکال سکا ۔اس سانحہ کے تذکرہ کی دوسری بڑی وجہ قراقرم انیٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت اور بلتستان یونیورسٹی سکردو میں سقوط ڈھاکہ کے ان ہیروز کو جنہیں ہم میں سے اکثریت بھول چکی ہے سلام پیش کرنے کے لیے سیمینارز کا اہتمام تھا جس میں راقم کو شریک ہونے اور گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ ان سیمینارزکا اہتمام پیغام پاکستان اور نوجوانوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم گلوبل یوتھ ایسوسی ایشننے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ گلوبل یوتھ ایسوسی ایشن کے چئیرمین کاشف ظہیر کمبوہ کی جانب سے سیمینارز میں شرکت کی دعوت ملی تو کہنے لگے کہ اس کا اہتمام خاص طور پر ان دنوں میں کیا جا رہا ہے جب گلگت بلتستان کے لوگ اپنا یوم آزادی منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔ان کے ساتھ مل کر سیمینار سے ایک دن پہلے یونیورسٹی کے نوجوانوں اور ان کی اساتذہ سے ملنے کا موقع ملا تو یقین کیجیے مجھے یہ احساس ہوا کہ ان کے دلوں میں پاکستان کے لیے کس قدر محبت اور پیار موجود ہے ۔ 
امن ، پیار ، محبت ، ایثار ، قربانی اور مہمان نوازی کے لیے بے مثال دھرتی پر جفا کش ، بہادر اور سرفروش جانبازوں سے مل کر یہ عقیدہ اور بھی پختہ ہوگیا کہ پاکستان محض ایک زمین کے ٹکڑے کا نام نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے اور اس نظریے کو موت نہیں ہے۔ اس سمینار ز میں مہمان خصوصی سابق سفارتکار افراسیاب مہدی تھے جو خود بھی بنگلہ دیش میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں ۔انہوں نے سانحہ سقوط ڈھاکہ کے حوالہ سے بہت سے حقائق بھی نوجوانوں کے سامنے رکھے جو عام طور پر نہیں بتائے جاتے۔ تاہم نوجوانوں کے لیے جو اہم بات جس کا انہوں نے تذکرہ کیا اور جو شاید ہمیں کتابوں میں نہ ملے وہ یہ تھی کہ جس طرح ہم عموما ً اپنی کتابوں میں یہودونصاریٰ کا تذکرہ کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیش کے لوگ یہودوہنود و نصاریٰ کی بات کرتے ہیں، اسی طرح بھارت کے ہندو آج بھی بنگلہ دیش کے لوگوں کے لیے ’’ملیش ( ناپاک) کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دوقومی نظریہ ابھی تک زندہ ہے۔ اسی طرح ایک نہایت دلچسپ بات جو انہوں نے دوقومی نظریہ کے حوالہ سے بتائی جو نوجوانوں کو ازبر کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستان ، بنگلہ دیش ، بھارت سمیت دنیا کے درجنوں ممالک کا دورہ کیا اور پاکستان کے لیے خدمات سرانجام دیں تاہم مجھے ایک بھی مسلمان ایسا نظر نہیں آیا جس کا نام رام، گنگا، دیو ہو اور کوئی ہندو ایسا نظر نہیں آیا جس کا نام احمد ، محمد ، عثمان ، عمر ہو اسی طرح مجھے پوری دنیا میں ایک بھی مسلمان ایسا نظر نہیں آیا جوگوشت کھانے کو حرام کہتا ہو کوئی ایسا ذبیح کھائے جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے جبکہ دوسری طرف ہندو اول تو گوشت کھاتا ہی نہیں لیکن اگر کھائے تو جس ذبیح پر اللہ کا نام لیا ہو وہ اس کے لیے حرام ہو جاتا ہے ۔یہ وہ حقائق ہیں جو اس قوم کے نوجوانوں کو بتائے جانے بہت ضروری ہیں اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان میں دیگر اقوام کو وہ حقوق نہ دیے جائیں جس کے وہ مستحق ہیں تاہم چونکہ بات سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں ہورہی ہے اس لیے ہماری نئی نسل کو جہاں ان حقائق سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے تاکہ انہیں اپنی تاریخ سے آگاہی کے ساتھ ساتھ ان سے اسباق حاصل کرنے میں بھی آسانی ہو ۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...