معاشرے کی تہذیب و تمدن کے معمار


عصمت دری ایک ایسا لفظ ہے جس میں تباہ کن معاشرتی عوامل ہیں جو عہد، رفتہ سے لے کر عصر ِ حاضر تک کی نسلوں تک پھیلا ہوا ہے ، یہ گھنائونہ عمل جسموںاور دماغوں کو تباہ اور امن کو خطرے میں ڈال دیتا ہے،جب معاشرے میں ایسے عمل کو معمولی تصور کر کے سزا اور جزا ء کے قانون کو خاموش کر دیا جائے تو یہ ایک ایسی وسیع اور بد بو دار گندی ثقافت پیدا کرتا ہے کہ جہاں جنسی تشدد کو عام کر کے خواتین اور معصوم لڑکیوں کو کم تر سمجھ کر درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے پورا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے، الفاظ ،افعال اور رعایت کے ذریعے امتیازی قوانین یا مجرموں کے لئے نرم گوشہ  رکھنے والے  اور ان رویوں پر سوال نہ کرنے والوںکے ذریعے ہم ایک ایسی ثقافت کا حصہ بن جاتے ہیں جو عصمت دری کو جاری رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے، جنسی تشدد معاشرے کا بدنما چہرہ ہے جو کہ نفسیاتی اذیت میں مبتلا معاشرے کی شکل اختیار کر جاتا ہے، جہاں ہر فرد خوف کے عالم میں اپنی ذات اور ماحول کو غیر محفوظ سمجھتا ہے  ۔
 حکمرانی علم ودانش اور شعور کی مرہونِ منت ہے ، اور جس کام میں نفسانی غرض آجائے ، اس  میں بر کت نہیں رہتی، کسی بھی مملکت میں معاشرتی بگاڑ ریاست کے زوال کا سبب بنتا ہے ، حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ’’ ملک کا بگاڑ تین گروہوں کے بگڑنے پہ موقوف ہے ،  حکمراں  جب بے علم ہوں ، علماء جب بے عمل ہوں ، اور فقراء جب بے توکل ہوں ‘‘  اربابِ اقتدار کی بے علمی اور لا شعوری کا عالم  یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں کمسن بچیوں اور عورتوں کی پے درپے عصمت ریزی کے کئی واقعات رونما ہوئے لیکن حکمرانوں کا شعور نہ جاگا، صوبائی سطح پر صوبوں کو موردِ الزام تو ٹھہرایا جاسکتا ہے لیکن دارلخلافہ میں جو شرمناک واقعات ہوئے ان کا ذمہ دار کون؟  علماء کسقدر دین پر عمل پیراء ہیں اور کتنے بے عمل ہیں ، سوشل میڈیا کے ذریعے بعض مفتی صاحبان کی شرمناک ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں انہیں ریاستی اداروں نے گرفتار کیا لیکن جو رسوائی بحیثیت امتِ مسلمہ اور پاکستانی قوم کے ہمیں ملی کیا اس کا زالہ ہو سکتا ہے ، میرے نزدیک  دورِ حاضر میں فقراء کا تصور ہی نہیں ہاں معاشرہ بے توکل اور بے رحم ہو گیا ہے۔
 دورِ حاضر کا  بے لگام جدید معلوماتی ذریعہ ’’ سوشل میڈیا ‘‘ معاشرے کے بگاڑ میںاہم کردار ادا کر رہا ہے نوجوان نسل اس کی اندھی تقلید کرتے ہوئے بلا تحقیق  اور بغیر سوچے سمجھے ناقابلِ اشاعت ،شر انگیزاورہتک آمیز مواد کو دوسروں تک پہچانے کے جرم کا  ارتکاب کر رہے ہیں ، کسی کی ذاتی زندگی یا ملک کی بقاء اور بدنامی پر مشتمل مواد کو بھی پھیلانے سے گریز نہیں کیا جاتا ، سوشل میڈیاپرکسی معاملے کو یک طرفہ اچھال کر ملک کو بدنام کرنے والوں پر بھی ملکی اداروں کی کڑی گرفت ہونی چاہئے ، جبکہ سوشل میڈیا ہرخاص و عام  اور معاشرے کے بے ہودہ اور بے وقوف شخص جس کے پاس فون ہے اس کو بھی رائے زنی کا حق دیتا ہے  ، ایسے کم ظرف اور شعور سے عاری افراد بدنامی اور عزت وتکریم سے نابلد ہوتے ہوئے ملک کو بدنام کرنے کے مرتکب ہیں ،ایسے لوگ ننگِ معاشرہ ہیں انہیں بد نامی سے کوئی سرو کار نہیں ایسے ہی لوگوں کے لئے شیفتہ نے کہا تھا کہ ،
ہم  طالب ِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام     
  بدنام  اگر  ہوں  گے  تو کیا  نام  نا  ہو گا
ملکی سطح پر ’’عدل ‘‘ کی جگہ ’’ جدل ‘‘ نے لے لی ہے ، یہ ملک کما کے کھانے والوں کا ہے ،اور اقتدار لوٹ کے کھانے والوں کاجس میں ’’ادب‘‘ کا توجنازہ ہی نکال دیا گیاہے ،ادب کے قرینوں میں سیاسی قائدین معاشرے کی تہذیب وتمدن کے معمار سمجھے جاتے ہیں ، اربابِ اختیا ر    ’’ فر د‘‘  او ر ’’اداروں ‘‘  میں تمیز کرنے سے قاصر ہیں اپوزیشن، وفاقی اور صوبائی وزراٗ  اداروں پر تنقید کرتے وقت ادب کو بھی ملحوظ ِ خاطر نہیں  رکھتے اوریہ بھول جاتے ہیں کہ وہ مستقل اقتدارمیں نہیں رہیں گے یہی ادارے مستقل ہیں اور یہی رہیں گے ، ادارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں اگر اداروں کو اپنے مفاد کی خاطر بے جا تنقید کے نشتر برسا کر متنازع بنایا جائیگا تو یہ ادارے کیسے پنپیں گے ،  اداروں کو اپاہج نہ کیا جائے ،فردِ واحد کا فیصلہ پسند نا آنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ پورے ادارے کو بندوق کی نوک پر رکھ کر چاند ماری شروع کر دیں ۔
 قیادت  صدیوں میں پیدا ہوتی ہے ،آج ملک میں قیادت کا فقدان ہے سیاسی قیادت معاشرے کی ا خلاقی اقدار کی پاس دار ہوتی ہے ، اس کے لئے غرور ، تکبر، انتہا پسندی ، ذاتی اناء اور مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملک اور قوم کے مفادات کو مقدم رکھناہو گا ۔

ای پیپر دی نیشن