حکومت نے اس بار یوم اقبال پر اس دن کی چھٹی بحال کر دی۔ بہت اچھا کیا۔ یہ چھٹی ختم بھی مسلم لیگ کے ایک سابقہ دور حکومت میں ہوئی تھی، نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اب اس غلطی کو ٹھیک بھی لیگ ہی کے دور حکومت میں کیا گیا۔ عوامی حلقے عرصے سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ چٹھی بحال کی جائے۔ وجہ کوئی بھی ہو، مطالبہ منظور ہو گیا، سب کو مبارک ہو۔
اقبال بہت بڑے نہیں، سب سے بڑے شاعر تھے۔ ہر بڑا شاعر اگر چھوٹا بڑا پہاڑ مانا جائے تو اقبال کوہ ہمالیہ تھے۔ علم اور تفکر کی جتنی دولت ان کے پاس تھی، کسی اور شاعر کے پاس نہیں تھی۔ ایک رپورٹ میں ہے کہ اردو میں سیرت النبی کے بعد سب سے زیادہ جس شخص کے بارے میں کتابیں اور مضامین لکھے گئے ، وہ اقبال ہیں۔ ایک دلچسپ بات کسی نے لکھی کہ اخیر عمر میں اقبال چاہتے تھے کہ ان کی ابتدائی اور وسطی عمر کی شاعری قلم زد کر دی جائے، صرف آخری دور کی شاعری شائع کی جائے جسے وہ سرمایہ حیات مانتے تھے۔ یہ ان کا خیال تھا، اردو ادب اگر زندہ وجود کی شکل اختیار کر لے تو وہ یہی کہے گا کہ اقبال کی لکھی کہی ہر سطر سرمایہ ہے۔
اقبال مفکر پاکستان تھے، پھر بھی ان کی دیو قامتی بھارت میں بھی مانی جاتی ہے، بی جے پی نے ان کے ذکر کو ممنوعات میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ناکام ہوئی۔ وہ ایران میں بھی ”سب سے بڑے“ مانے جاتے ہیں اور عرب دنیا کے اہل قلم کو بھی انہوں نے مسحور کر رکھا ہے حالانکہ انہوں نے صرف اقبال کا ترجمہ پڑھا ہے، آہنگ کا ترجمہ اگرچہ ہو ہی نہیں سکتا۔
ہم اقبال کو مانتے ہیں لیکن ریاستی امور میں انہیں نظرانداز کر رکھا ہے۔ یعنی ان کی کوئی بات نہیں مانتے۔ ویسے ہی جیسے جو کچھ بھی قائد اعظم نے کہا، ہم نے نہیں مانا۔ ہم نے بس اپنے جی کی بات ماننا ہے جو اصول قائد اعظم نے طے کئے تھے، وہ بس دستور میں درج کرنے کے لیے تھے، عمل کرنے کے لیے نہیں۔ یوں ہم نے اقوام عالم کی گیلری میں اپنی تصویر بگاڑ ڈالی۔
__________
عمران خان کے اس انٹرویو کا بہت شہرہ ہے جو دو تین روز پہلے انہوں نے امریکی ٹی وی سی این این کو دیا۔ یہ شہرہ دو سوالوںکے حوالے سے ہے۔
ٹی وی میزبان نے پوچھا، آپ خود پر قاتلانہ حملے کا الزام بعض ریاستی اور حکومتی شخصیات پر لگاتے ہیں، اس کا کیا ثبوت ہے۔
خان صاحب نے جواب میں بتایا کہ کس صحافی نے کتنے بج کر کتنے منٹ پر کیا ٹویٹ کیا، کس لیڈر نے کیا بیان دیا، میں نے دو مہینے پہلے کیا کہا۔ میزبان خاتون بار بار سوال کرتی رہی، خان صاحب ہر بار دیگر معاملات پر اس کی معلومات میں اضافہ کرتے رہے لیکن جو سوال تھا، اس کی طرف نہیں گئے۔ آخر میزبان نے ہار مان لی، خان صاحب بدستور ثابت قدم رہے۔ خان صاحب کی ثابت قدمی کا ایک اور ثبوت مل گیا۔
دوسرا سوال بجائے خود سوالنامے کی تاریخ میں کلاسیک بن گیا اور خان صاحب کی حالیہ جدوجہد کا عنوان بھی۔ پوچھا کہ آپ فوج پر تنقید کرتے رہتے ہیں، دراصل آپ چاہتے کیا ہیں۔ یہ کہ فوج سیاست میں کردار ادا کرنا چھوڑ دے یا آپ کی مدد اور حمایت کے لیے کردار ادا کرے۔ جواب میں خان صاحب نے کرکٹ کے میدان میں اپنی خدمات کا خلاصہ بیان کیا۔ اس بار میزبان خاتون نے فوراً ہی ہار مان لی، سوال کا اعادہ نہیں کیا۔
ویسے خان صاحب اپنا مطالبہ واضح الفاظ میں کر چکے ہیں۔ یہ کہ فوج کو حق و باطل کی اس جنگ میں حق کا ساتھ دینا چاہیے اور حق میں ہوں، اناالحق....
_________
دو تین روز سے جاری چند درجنی احتجاج عمران خان نے ختم کر دیا ہے۔ وجہ یہ بتائی کہ عوام کو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ وجہ تو اپنی جگہ ہے، اچھی بات ہے کہ خان کو بھی پتہ چل گیا کہ لوگ اس احتجاج سے تنگ ہیں۔ سوشل میڈیا اس غم و غصے کی تصویروں سے بھرا پڑا ہے۔ لوگوں کی گالیاں ، ملاحیاں، بددعائیں سب موجود ہیں اور وہ وڈیوز بھی جن میں مجاہدین آزادی خواتین سے ہاتھا پائی کر رہے ہیں، بیماروں اور بچوں کو بھی راستہ نہیں دے رہے، احتجاج کرنے والے عوام کی ٹھکائی کر رہے ہیں لیکن احتجاج کا خاتمہ ان وڈیوز یا عوام کی بددعاﺅں، ملاحیوں سے ڈر کر نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ کچھ اور تھی۔
یہ کہ گورنر راج لگ رہا ہے، یہ کہ سخت پکڑ ہونے والی ہے، یہ کہ جیل میں صفائی ہونے والی ہے، یہ کہ شاہراہوں پر حکومت رینجرز یا فوج کو بھیجنے والی ہے۔ یہ سب خبریں خان صاحب کو پہنچیں یا پہنچائی گئیں اور نتیجہ نکل آیا۔ خبریں سچ تھیں یا جھوٹ، اثر کر گئیں۔
لیکن ایک بات ان سے بھی بڑھ کر ہوئی۔ احتجاج کرنے والے درجنوں میں تھے اور ان کی تعداد دوسرے تیسرے دن بھی بڑھی نہیں، کم ہی ہوئی۔ سب نے دیکھا کہ آٹھ دس آدمی نکلے، دو ٹائر جلا کر سڑک پر رکھ دئیے یا دو گاڑیاں چوڑائی کے رخ میں سڑک پر کھڑی کر دیں۔ لیجئے جناب، انقلاب کی راہ ہموار ہو گئی۔
خان صاحب تعداد کی اس ”قلت“ پر دقّت میں تھے، مایوس تھے اور غصے میں بھی لیکن اس بار غصے میں جارحیت کم، قنوطیت زیادہ تھی۔ تازہ وڈیوز میں خان صاحب جوش ملیح آبادی کم اور فانی بدایونی زیادہ لگ رہے تھے (اول الذکر شاعر انقلاب) انہیں غالب کی غزل پڑھنی چاہیے
بیٹھے ہیں رہگذر پہ ہم کوئی ہمیں اٹھائے کیوں!
_________
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ سیاسی بحران کی وجہ سے غریب آدمی پس گیا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سیاسی بحران نہیں، محض چند درجنی بحران ہے، دوسری بات یہ کہ بیان سے لگتا ہے جیسے بحران نہ ہوتا تو غریب پیسے جانے سے بچ جاتا۔ انہیں کوئی بتائے کہ پاکستان میں بحران ہو یا سکون، بدامنی ہو یا امن، معاشی زوال ہو یا نہ ہو، غریب نے تو پسنا ہی ہے۔ حکومت کی چکّی کسی کے پاس بھی ہو، پسائی کے لیے واحد خام مال غریب ہی ہے، اب اضافہ اس میں لوئر مڈل کلاس کے خام مال کا بھی ہو گیا ہے۔
عمران__ جوش سے فانی تک کا سفر
Nov 10, 2022