وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے "شرم الشیخ کلائمیٹ امپلیمنٹیشن سمٹ" میں شرکت کی۔وزیر اعظم کے ہمراہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور کابینہ کے دیگر اراکین اور اعلیٰ حکام بھی تھے۔یہ سربراہی اجلاس اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی27ویں کانفرنس (COP-27) کے ایک حصے کے طور پر ہوا۔COP-27 کی مصری صدارت کی دعوت پر وزیر اعظم نے اپنے نارویجن ہم منصب کے ساتھ "کلائمیٹ چینج اینڈ سسٹین ابیبلٹی آف ولنرایبل کمیونٹیز" پر ایک اعلیٰ سطحی گول میز مباحثے کی صدارت بھی کی۔ وزیر اعظم اعلیٰ سطحی تقاریب بشمول اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی ایگزیکٹیو ایکشن پلان کے ابتدائی وارننگ سسٹمز کے آغاز کے لیے گول میزمیں بطور اسپیکر بھی شرکت کی۔تاہم "مڈل ایسٹ گرین انیشیٹو سمٹ" جس کی میزبانی سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان کر رہے تھے،اس میں بھی شرکت کی۔اس موقع پر وزیر اعظم سمٹ کی سائیڈ لائنز پر کئی عالمی رہنماو¿ں کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتیں بھی ہوئیں۔کوپ-27 (COP 27) ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا جب پاکستان میں اور دنیا کے دیگر حصوں میں لاکھوں لوگ موسمیاتی تبدیلی کے شدید منفی اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔اس رجحان سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر پاکستان ماحولیاتی یکجہتی اور موسمیاتی انصاف کی فوری ضرورت کے لیے ایک مضبوط کال کرے گا،جو مساوات اور مشترکہ لیکن مختلف ذمہ داریوں اور متعلقہ صلاحیتوں کے قائم کردہ اصولوں پر مبنی ہے۔اسی طرح 77 گروپ کے موجودہ چیئر کی حیثیت سے جو کہ اقوام متحدہ کے نظام میں ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا مذاکراتی بلاک ہے، پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے مذاکرات بشمول موضوعاتی شعبوں جیسا کہ موسمیاتی مالیات، موافقت، تخفیف اور صلاحیت کی تعمیر میں گروپ کی قیادت بھی کرے گا۔ یہ امر حقیقی ہے کہ COP اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (UNFCCC) کے تحت فیصلہ سازی کا سب سے بڑا ادارہ ہے،جو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں کا جائزہ لینے اور آگے بڑھانے کے لیے سالانہ بنیادوں پر اجلاس منعقد کرتا ہے۔ایک اہم اسٹیک ہولڈر کے طور پر پاکستان عالمی موسمیاتی تبدیلی پر بحث، مذاکرات اور اجتماعی کارروائی میں مثبت کردار ادا کرتا رہا ہے۔
شرم الشیخ میں وزیراعظم کی مختلف ملکوں کے رہنماو¿ں سے ملاقاتیں ہوئیں، جن کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلقہ مسائل پر بات چیت کرنا تھا۔ اس حوالے سے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کوپ 27 کانفرنس کا مصر میں انعقاد موسمیاتی تبدیلی اور عالمی حدت پذیری کے خلاف انسانیت کی جنگ میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ اس وقت پاکستان اور افریقہ میں انتہائی موسمی واقعات نے موسمیاتی تبدیلی کی عالمگیریت کو ظاہر کیا ہے۔ اس کے مہلک اثرات پر آنکھیں بند کرنا مجرمانہ غفلت ہوگی۔ وزیراعظم نے جی 77 کی صدارت کرتے ہوئے دنیا پر زور دیا کہ وہ کلائمیٹ فنانسنگ اور نقصانات کے ازالہ کے لیے فنڈ کے طور پر اپنے وعدہ کو پورا کرے۔ مالی مدد کے بغیر ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلی کے متعدد خطرات سے دوچار رہیں گے۔
دوسری جانب پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو موسیماتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔بعض ماہرین اس حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ پاکستان آئندہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے مزید متاثر ہوگا جس کی وجہ سے اسے شدید سیلابی سلسلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حالیہ سیلاب پاکستان کی تاریخ میں ایک بڑا سیلاب تھا جس نے بڑے پیمانے پہ تباہی مچائی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سیلاب کی وجہ سے سوا تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ اس وجہ سے جو جانی و مالی نقصان ہوا اس کا تخمینہ تو لگایا جاچکا ہے لیکن سیلاب زدہ علاقوں اور افراد کی بحالی کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہے۔
یہ امر حقیقی ہے کہ پاکستان کا موسمیاتی تبدیلیوں کے اسباب میں حصہ بہت کم ہے لیکن جس صورتحال کا سامنا ہے اس میں وہ کم حصہ بھی بہت زیادہ ہے۔اندرون حالات موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔
اس میں دہرائے نہیں کہ پاکستان کو حالیہ سیلاب کی وجہ سے جس بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا اس کے لیے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کم اور ترقی یافتہ ممالک زیادہ ذمہ دار ہیں، لہٰذا یہ ترقی یافتہ ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان اور اس جیسے ان دیگر ملکوں کے نقصانات کا ازالہ کریں جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثر ہوئے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے پاکستان کے حالیہ دورے کے موقع پر کہا تھا کہ پاکستان دوسرے ملکوں کی پیدا کردہ آلودگی سے براہِ راست متاثر ہورہا ہے۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات پورے کرنا اکیلے پاکستان کے وسائل سے ممکن نہیں، دنیا کی ذمہ داری ہے کہ اس مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دے۔ بہت سے ممالک نے اس سلسلے میں پاکستان کی مدد کی بھی اور امکان یہی دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی برادری سے اس حوالے سے مزید امداد بھی ملے گی۔
تاہم یہ بات اہم ہے کہ حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز اور ماہرین کی مشاورت سے ایک ایسی جامع پالیسی بنائے جس کے ذریعے موسمیاتی تبدیلیوں اور ان سے ہونے والے نقصانات پر قابو پایا جاسکے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں جتنی تاخیر کی جائے گی پاکستان کو اتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اقوام متحدہ سمیت تمام بڑے اور اہم ادارے خبردار کررہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں جو رخ اختیار کررہی ہیں اس سے آنے والے برسوں میں ہمیں ایسے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو اس سے پہلے ہم نے نہیں دیکھے۔ان حالات میں حکومت کی جانب سے ایک جامع پالیسی تشکیل دینا ایک ایسا فرض ہے جسے ہمیں ہر حال میں پورا کرنا ہی پڑے گا۔اس میں دہرائے نہیں کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف کے شرم الشیخ کلائمیٹ امپلیمنٹیشن سمٹ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت ماحولیاتی تبدیلی پاکستان اور دیگر ترقی پزیر ممالک کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے،جس کا سامنا حال ہی میں سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی صورت میں کیا گیا۔جس میں وسیع پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے۔تاہم اس حوالے سے دیکھا جائے تومصر میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے انعقاد سے کانفرنس کی سفارشات پر عمل درآمد کے مثبت نتائج بر آمد ہوں گے اور ترقی یافتہ ممالک اس حوالے سے اپنی زمہ داریاں پوری کریں گے۔
وزیر اعظم کی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت
Nov 10, 2022