اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیا عدالت پارلیمنٹ کو ترامیم لانے سے روک دے۔ چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ آپ کے مطابق کرپشن کے حوالے سے کچھ بنچ مارک ہیں جنہیں برقرار رکھنا ہے، ابھی یو اے ای بھی منی لانڈرنگ کے کمزور قوانین کی وجہ سے گرے لسٹ میں ہے، آپ کیس میں بنیادی حقوق پر بات کریں۔ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کرپشن سے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں، فیئر ٹرائل اور برابری کا حق بھی متاثر ہوتا ہے، اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عوامی پیسے کے غلط استعمال سے بھی عوام کا اعتماد خراب ہوتا ہے۔ اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کی باتیں پارلیمنٹ کے لیے اچھی تقریر ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمنٹ میں تو کوئی سننے کو تیار نہیں، انہیں جو کرنا ہے وہ کرنا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سننے کے لیے پارلیمنٹ میں ہونا بھی چاہیے، اگر آپ انتخابات جیتتے ہیں تو اپنی ترامیم لائیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ دنیا کا ہر ملک کرپشن قوانین اور سزاؤں کو سخت کرنے کا کہہ رہا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ حارث صاحب کا خیال ہے جو چھوٹ گئے ان کو پکڑنا مشکل ہوگا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ سوئس اکاؤنٹس کیس میں کیس ختم ہوتے ہی سارا ریکارڈ غائب کر دیا گیا، نیب ریفرنسز میں بھی اصلی دستاویزات نہ ہونے سے ملرمان بری ہوئے، 31 اے ختم نہ ہوتا تو اسحاق ڈار واپس نہیں آ سکتے تھے۔ خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ پورا نظام مفلوج کیا جارہا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جتنا آپ دلائل دیں گے ہم میچ سے دور ہوتے جائیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ترامیم ختم ہونے سے کیا عدالتوں کے احکامات ختم ہو جائیں گے، سپریم کورٹ قوانین کو بحال بھی کرسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت عظمٰی نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔