پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ تنازعہ کشمیر کے عملی طور پر تین فریق پاکستان، کشمیری عوام اور بھارت ہیں اس تنازعہ کو محض اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں کے مطابق ہی حل کیا جا سکتا ہے اور جب تک کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت نہیں دیا جاتا، تب تلک کوئی یکطرفہ فارمولہ پاکستان و کشمیری عوام کو کسی صورت قبول نہیں۔ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اس مسئلے کو بھارت خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھے اور اس وقت کے بھارتی وزیراعظم نے اعلانیہ طور پر اقرار کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہش کے مطابق ہی حل کیا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی حکمران ان وعدوں سے منحرف ہوتے چلے گئے اور اب صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو 5 اگست 2019 کے بعد سے اب تلک قابض بھارتی فوج نے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے لیکن یہ امر خوش آئند ہے کہ اب عالمی سطح پر بھی ان بھارتی مظالم سے متعلق کھل کر بات کی جانے لگی ہے۔
اس تناظر میں 7 سے 18 نومبر تک یونائیٹڈ نیشنز ہیومن رائٹس کونسل جنیوا میں ’’ یونیورسل پیریاڈک ریویو ‘‘ (Universal Periodic Review ) کا 41 واں اجلاس منعقد کیا جا رہا ہے۔ اس اجلاس میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ دوسرے رکن ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیں۔ آج یعنی 10 نومبر کو نیدرلینڈ، سوڈان اور نیپال اس اجلاس میں بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیں گے۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ نے ایک سمری رپورٹ جاری کی تھی جو بھارت اور ہندوستانی غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کا احاطہ کرتی ہے، اجلاس میں اس رپورٹ کے تناظر میں بھارت سے جواب طلب کیا جائیگا۔ اس رپورٹ میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے بھارتی اقلیتوں کیخلاف ظلم و تشدد کے واقعات، زیر قبضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وہاں انسانی حقوق کی مسلسل بگڑتی صورتحال، مقبوضہ وادی میں انٹرنیٹ سمیت دیگر سہولیات کی بندش اور ہندوستانی سیکورٹی فورسز کی جانب سے AFSPA ، PSA اور UAPA جیسے کالے قوانین کے بے دریغ استعمال کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ امر اپنی جگہ توجہ کا حامل ہے کہ گذشتہ چار برس میں زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر عالمی این جی اوز، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ و دیگر عالمی اداروں نے 2200 سے زائد شکایات درج کرائی ہیں۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ اس پس منظر میں کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز ( KIIR ) کی جانب سے اقوام متحدہ انسانی حقوق کے ادارے یعنی UNHRC میں خصوصی رپورٹ جمع کرائی گئی ہے جس میں بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ہندوستانی سیکورٹی فورسز کے غیر انسانی مظالم پر تفصیلاً روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ اپنی بد ترین انسان دشمنی پر بھارت کے خلاف جنیوا کنونشن کے تشدد اور جبری گمشدگیوں کے پروٹوکولز کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ UPR ریویو کمیٹی کی رپورٹ میں بھی یہ نکات شامل ہیں۔
مبصرین کے مطابق غزہ کی یہودی بستیوں کی طرز پر مقبوضہ کشمیر کے طول و عرض میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس بھارتی فوجی اہلکاروں کی کالونیا ں بنائی جا رہی ہے اور انھیں ڈومیسائل سٹیٹس بھی دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ 370 کے خاتمے کے بعد یہاں نافذ کئے گئے دہلی کے مرکزی قوانین میں سے ایک ایف آر اے ( فارسٹ رائٹس ایکٹ) بھی ہے ، اس قانون کے مطابق جنگلات کو وہاں کے شہریوں کی رضامندی اور انھیں دگنا معاوضہ دیئے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن مقبوضہ کشمیر میں جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ دھڑلے سے جاری ہے ۔ بھارت کے اعتدال پسند حلقے بھی یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ فی الفور مقبوضہ کشمیر میں ایف آر اے قانون پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
غیر جانبدار مگر سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ بھارت کی 1000 سالہ تاریخ پر سرسری سی بھی نگاہ ڈالیں تو یہ امر پوری طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ ہندوستان اپنی تاریخ کے زیادہ تر حصے میں غلامی کی حالت میں وقت گزارتا رہا۔ اس کی توجیہہ تلاش کرتے ہوئے بیشتردانشوروں نے کہا ہے کہ دہلی کے حکمران اس صورتحال کے لئے اپنی غیر انسانی روش کے علاوہ کسی دوسری چیز کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ یہ امر کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ ہندوستان ہمیشہ سے ذات پات کے بدترین نظام میں جکڑا رہا ہے اور ابھی تک وہی صورتحال جوں کی توں برقرار ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اونچی ذات کے بالادست ہندو طبقات نے ہمیشہ شعوری و غیر شعوری دونوں طرح سے کوشش کی ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اپنے سے حقیر سمجھا جائے اور اپنے اسی چلن کے نتیجے میں وہ زیادہ تر عرصہ غلام رہا ہے۔
کیونکہ یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ 1857 تک بھارت میں برائے ہی سہی مگر مسلمانوں کی حکومت قائم تھی اور یوں موجودہ بھارت کی آزادی کی عمر محض 75 برسوں پر محیط ہے اور قوموں کی زندگی میں پچھتر سال درحقیقت اتنا طویل عرصہ نہیں ہوتا کہ جس کی بنا پر کوئی ایسا نتیجہ نکالا جا سکے کہ اس قوم کا دیرپا مستقبل کیا ہو گا۔ ایسے میں اس امر کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اپنی غیر انسانی روش کے منطقی نتیجے کے طور پر تاریخ اپنے آپ کو دہرائے اور بھارت دوبارہ پستی کی گہرائیوں میں گر کر ایک بار پھر ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوجائے۔