وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز دو خطوط چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کو ارسال کیئے ۔ خطوط میں حیرت انگیز مماثلت ہے ، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ دونوں خطوط قاتلانہ حملے سے متعلق ہیں ، ایک واقعے میں ارشد شریف جاں بحق ہوئے جبکہ دوسرے قاتلانہ حملے میں تحریک انصاف کے چئرمین عمران خان اور انکے کچھ شرکاء زخمی ہوئے اور ایک شریک قافلہ بھی جاں بحق ہوا۔وزیر اعظم نے خطوط میں چیف جسٹس سے سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان پر مشتمل (فل کورٹ) جو ڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ دونوں خطوط دو دو صفحات پر مشتمل ہیں ، دونوں خطوط میں پانچ پانچ بنیادی سوالات وضع گئے گئے ہیں۔ دونوں خطوط میں ذکر ہے کہ دونوں واقعات قومی سلامتی سے جڑے ہیں، دونوں واقعات قانون کی حکمرانی سے متعلق ہیں دونوں خطوط میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں واقعات پر جو قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں اس سے وفاقی حکومت اور دیگر ریاستی اداروں پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں اس لیئے ضروری ہے کہ ان واقعات کی تحقیقات سپریم کورٹ کے تمام جج صا حبان مل کر کریں ، اور حقائق کو منظر عام پر لائیں۔البتہ عمران خان پر حملے سے متعلق خط میں وزیر اعظم نے بالخصوص ذکر کیا ہے کہ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کو بھی اس سازش کے لیئے مورود الزام ٹہرایا جا رہا ہے اور ایک مزموم مہم چلائی جا رہی ہے، حقیقت حال یہ ہے کہ دونوں مجرمانہ واقعات کو ہوئے بہت تاخیر ہو چکی ہے، بہت سے شواہد ضائع ہو چکے ہیں، عمران خان کے واقعے میں چار دن کے بعدجو ایف آئی آر درج ہوئی تو وہ بھی اصل مدعی کے ہوتے ہوئے انہیں نظر انداز کیا گیا اورپولیس کو مدعی بنا دیا گیا ،اور اصل مدعی کی جانب سے نامزد ملزمان کا ایف آئی آر میں اندراج ہی نہیںکیا گیا۔حکومتی عہدیداران کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیان بازی نے بھی مقدمات کے میرٹ کو نقصان پہنچایا ہے ،جس سے شفاف تفتیش و تحقیقات میںمشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ارشد شریف کے مقدمہ میںجو پانچ سوالات سپریم کورٹ کے سامنے تحقیقات کے لیئے وضع کیئے گئے ہیں انکے جواب میں پہلے سے ہی قیاس آرائیاں، اندازے اوربیان بازی ہو چکی ہے جو
شفاف تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔وزیر اعظم نے پہلا سوال تجویز کیا کہ وہ کیا طریقہ کارتھا جس کے تحت ارشد شریف اگست 2022 میں ملک سے روانہ ہوئے؟وہ کون افراد ہیں جنہوں نے ارشد شریف کی روانگی ممکن بنائی؟ اب اس سوال میں ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ شاید ارشد شریف کسی کاروائی سے بچنے کے لیئے ملک سے فرار ہوئے ، لیکن ذی شعور افراد جانتے ہیں کہ فلم ’پاکستان سے زندہ بھاگ ‘ کیوں بنائی گئی تھی؟ ارشد شریف بھی زندہ رہنے کے لیئے پاکستان سے نکلا۔ اپنی جان بچانا آپ کا قانونی اورشرعی فریضہ ہے،آپ کے خلاف ایک درجن سے زائد مقدمات محض منافرت کی بنیاد پر بنا دیئے گئے ہوں ، مختلف شہروںمیںایف آئی آر کا اندراج ہو رہا ہو اور حیرت انگیز طور پرایف آئی آر کا متن تمام ایف آئی آرزمیں ایک جیسا ہو تو کون عقل سے پیدل شخص ہو گا جو اس سازش کی بو محسوس نہیں کرے گا اور اپنی جان کو لاحق خطرات سے آگاہ نہیں ہو گا ، کسی کو شک ہو تو اس خطرے کے ہاتھوں مجبور ہونے والے پہلے ایک صحافی اینکر سے رابطہ کر لے ،وہ بتا دیں گے کہ ملک چھوڑنے کے لیئے مجبوری کیا ہوتی ہے۔ دوسرے سوال میں وزیر اعظم پوچھتے ہیںکیا وفاقی یا صوبائی سطح پر قانون نافذ کرنے والے ادارے ارشد شریف کو لاحق خطرات سے آگاہ تھے اور اگر آگاہ تھے تو انہوں نے ان خطرات کو کم کرنے کے لیئے کیا اقدامات کیئے ؟ اب اس سادگی اور بھولپن پہ کوئی کیا لکھے، اپنے مقتل روانگی سے قبل ارشد شریف کے بیانات، عدالتوں میں مقدمات، اپنے فیس بک اور ٹویٹر پر پیغامات اور پوسٹس اب بھی چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ خون نا حق بہہ سکتا ہے ، لیکن کسے پرواہ تھی کہ ارشد شریف کے ان پیغامات کو سیاسی منافقت کی عینک اتار کر دیکھتا۔ارشد شریف کا ملک کے تمام بڑے عہدیداران کے نام لکھا گیا کھلا خط بھی اندھی حکومت کو نظر نہ آیا ۔ اب پوچھتے ہیں کہ کیا حکومتی ادارے ارشد کو لاحق ان خطرات سے آگاہ تھے۔تیسرا سوال جو پوچھا گیا کہ وہ کون سے حالات و واقعات تھے جنکے تحت ارشد شریف کو متحدہ عرب امارات سے کینیا جانا پڑا؟اس حوالے سے بھی یہ کہا جائے کہ ادارے کی ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں پہلے سے ہی ایک چینل کے مالک کا نام بطور ملزم لے دیا گیا جس کا ارشد شریف کے ساتھ وہ تعلق تھا کہ اس پر شک کرنا بھی گوارہ نہیں کیا جا سکتا ، اگرچہ ارشد شریف نے ادارہ چھوڑ دیا لیکن آٹھ سال تک ارشد کے اپنے آجر کے ساتھ بے مثال اعتماد کا تعلق رہا ، اسی لیئے ارشد کی والدہ محترمہ نے بھی اس جانب اٹھنے والی انگلیوں کی نفی کی ہے۔ چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ ارشد شریف پر فائرنگ کے وہ کیا حقائق تھے جس کے باعث ارشد کی موت واقع ہوئی؟ یہ جواب ڈحونڈھنے کے لیئے ایک تین رکنی تحقیقاتی ٹیم کینیا گئی اور واپس آ گئی،ذرائع کے مطابق اس ٹیم کوکینیا میںحکومتی سطح پر کوئی خاص رسائی نہیں دی گئی، یہ ٹیم کینیا میں موجود پاکستانی سفیر کے مرہون منت رہی، جو ملاقاتیں ہو سکتی تھیں وہ تمام پاکستانی سفیر نے کروائیں ، جو ریکارڈ اور شواہد اور انٹرویو ٹیم کو مطلوب تھے انکا حصول ادھورا رہا اور وزارت داخلہ کے ذرائع یہ کہتے ہیں کہ ہماری ٹیم کو ادھوری تحقیقات کی حد تک ہی رسائی مل سکی تھی۔پھر پانچواں سوال میں پوچھا جا رہا کہ کیا ارشد شریف کی موت شناخت کی غلطی کا نتیجہ تھی یا کوئی اور ’فاول پلے‘ ملوث تھا؟ شاید وزیر اعظم کو نہیںپتہ کہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ پریس کانفرنس میں بڑے وثوق سے یہ نتیجہ سنا چکے ہیں کہ ارشد شریف کی موت کسی mistaken identity کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ یہ قتل عمد تھا ۔اب خود سوچیئے کہ جب اس حد تک کیس سے متعلق گل فشانی ہو چکی ہے تو پھر عدالت بھی سوچے گی کہ ایک خراب کیئے گئے کیس میں ہم کیوں اپنا کندھا استعمال کرنے دیں۔ وزیر اعظم کا تمام جج صاحبان پر مشتمل فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ قطعی طور پر نہیں مانا جائے گا ، کیونکہ ماضی میں فل کورٹ کسی آئینی مقدمات کی سماعت کے لیئے تو بنتے رہے ہیں لیکن تحقیقاتی کمیشن کے لیئے اتنی ذیادہ تعداد میں جج صاحبان کبھی بھی میسر نہیں ہو سکیںگے۔ وزیر اعظم کو چاہیئے تھا کہ ان دو خطوط کے ساتھ ایک تیسرا خط بھی بھیج دیتے جس میں سائفر کی تحقیقات کا اپوزیشن کا دیرینہ مطالبہ بھی پورا ہو جاتا، اور کمیشن بنے یا نہ بنے وزیر اعظم کہ سکتے کہ میں نے تو سپریم کورٹ کو خط بھیج کر اپنی ذمہ داری پوری کر دی ، انہین بھی پتہ ہے اور عوام کو بھی کہ جو ڈیشل کمیشن بن بھی گیا تو کوئی نتیجہ نہیں نکلنا ، جوڈیشل کمیشنز کی تاریک یہی بتاتی ہے کہ کوئی معاملہ سرد خانے میں ڈالنا ہو تو اس پر تحقیاتی کمیشن بنا دیں ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اشو ختم ہو جائے گا اور نئے اشوز اور واقعات رونما ہو جائیں گے جن کے لیئے پھر اسی طرح کے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا جائے گا، یہ بھی ایک کھیل ہے جو جاری رہے گا۔