وزیراعظم شہبازشریف نے چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال کو دوسرا خط بھجوا دیا ہے جس میں عمران خان پر فائرنگ کے واقعہ کے حقائق جاننے کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل ہو۔ خط میں پانچ سوالات پر مبنی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) بھی تجویز کئے گئے ہیں۔ مجوزہ کمیشن کی انکوائری کیلئے جو پانچ سوال وزیراعظم کی جانب سے بھجوائے گئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ کارواں کی حفاظت کی ذمہ داری کون سے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی تھی۔ 2۔ ایک سے زیادہ شوٹرز کی اطلاع اور جوابی فائرنگ سے متعلق حقائق کیا ہیں اور حادثے کے اپنے حقائق کیا ہیں۔ 3۔ کیا سٹینڈرڈ اپریٹنگ پروسیجر پر عمل کیا گیا اور کیا لانگ مارچ کی حفاظت کیلئے مروجہ حفاظتی اقدامات اور سٹینڈرڈ اپریٹنگ پروسیجر لاگو کئے گئے۔ 4۔ مجموعی طور پر زخمی افراد کی تعداد اور انکے زخموں کی نوعیت سے متعلق حقائق کیا ہیں۔ 5۔ کیا وقوعہ کی تحقیقات کے عمل میں دانستہ رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ اگر رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں تو یہ عناصر کون ہیں اور ایسا کیوں کر رہے ہیں اور آیا کوتاہیوں کا ذمہ دار قانون نافذ کرینوالے اداروں اور صوبائی حکومت کے عہدیداروں کو ٹھہرایا گیا ہے۔ اگر ایسا نہیں تو ضابطے کی کیا خامیاں اور کمزوریاں سامنے آئیں اور ان کوتاہیوں کا ذمہ دار آیا انتظامی حکام کو ٹھہرایا گیا۔ مراسلہ میں اس معاملہ کی انکوائری کا بھی تقاضا کیا گیا کہ آیا یہ وقوعہ قاتلانہ سازش تھی جس کا مقصد واقعی چیئرمین پی ٹی آئی کو قتل کرنا تھا یا یہ محض ایک فرد کا اقدام تھا۔ ان دونوں صورتوں میں کسی ایک کے بھی ذمہ دار عناصر کون ہیں۔ مراسلہ میں استدعا کی گئی ہے کہ قانون کی حکمرانی کے مفاد میں اس معاملہ کی ٹھوس بنیادوں پر انکوائری کی جائے۔
مراسلہ میں فاضل چیف جسٹس کو اس جانب متوجہ کیا گیا ہے کہ تحقیقات اور شہادتیں جمع کرنے کا مروجہ طریق کار نہ اپنانا بدنیتی کی غمازی کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں وفاقی حکومت صوبائی انتظامیہ کو اپنے سنگین تحفظات سے آگاہ کر چکی ہے جبکہ پنجاب اور خیبر پی کے حکومتوں کی سرپرستی میں شر پسند عناصر نجی و سرکاری عمارتوں پر حملے کر رہے ہیں۔ شرپسند عناصر گورنر ہائوس پنجاب اور دیگر مقامات پر پرتشدد حملے کر رہے ہیں اور ریاستی اداروں بالخصوص مسلح افواج کیخلاف کردار کشی کی مہم چلائی جا رہی ہے اور مسلح افواج پر وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر سازش کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کا کمیشن ذمہ داروں کا تعین کرے اور اصل حقائق سامنے لائے۔ موجودہ حالات امن عامہ اور پاکستان کی ریاستی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے انداز سیاست اور انکی احتجاجی تحریک میں اختیار کئے گئے طرز عمل پر اختلاف ہو سکتا ہے مگر انہیں آئین کے تقاضوں کے تحت اظہار رائے کی آزادی اور پرامن احتجاج کا بھی حق حاصل ہے۔ اگر احتجاج کے دوران اندیشۂ نقص امن پر مبنی اقدامات اٹھائے جائیں اور گھیرائو جلائو کا راستہ اختیار کرکے سرکاری اور نجی املاک اور انسانی جانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے تو پھر ریاستی انتظامی مشینری کے ذریعے قانونی کارروائی عمل میں لانا ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ شہریوں کی جان و مال اور املاک کے تحفظ کی ذمہ داری بہرصورت ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ عمران خان کی احتجاجی تحریک کے حوالے سے افسوسناک صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ اس تحریک میں ریاست اور ریاستی اداروں کو ہی ہدف بنایا گیا اور خود عمران خان اداروں سے وابستہ شخصیات کے نام لے کر انہیں چیلنج کرتے رہے جس سے انکی اختیار کردہ سیاسی محاذآرائی میں منافرت کا عنصر بھی شامل ہو گیا۔ انکے لانگ مارچ کے حوالے سے خود انکے قریبی ساتھی فیصل وائوڈا نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس میں انہیں انسانی خون ہی خون اور لاشیں ہی لاشیں نظر آرہی ہیں۔ عمران خان نے لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا جس کیلئے انکے ذہن میں یہی تصور ہوگا کہ پنجاب میں انکی اپنی حکومت ہے اس لئے لانگ مارچ کو تحفظ اور محفوظ راستہ ملتا رہے گا۔ وفاقی وزارت داخلہ نے لانگ مارچ کو صرف اسلام آباد میں داخل ہونے سے ر وکنے کے انتظامات کر رکھے تھے جس کا وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ عندیہ بھی دیتے رہے مگر بادی النظر میں پنجاب حکومت کی جانب سے لانگ مارچ کے دوران وہ حفاظتی اقدامات نہ اٹھائے گئے جو اسکے دوران کسی شرارت یا تخریب کاری کے سدباب کیلئے ضروری تھے۔ انہی سکیورٹی لیپس کی بنیاد پر وزیرآباد میں عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ ہوئی جس میں عمران خان سمیت انکی پارٹی کے 13 عہدیدار اور کارکن زخمی اور ایک جاں بحق ہوا جبکہ فائرنگ کرتے موقع پر پکڑے جانیوالے ملزم نے پولیس کے روبرو اپنے اقبالی بیان میں اعتراف کرلیا کہ اس نے بطور خاص عمران خان کو ٹارگٹ کرکے فائرنگ کی۔ بے شک ملزم کے بیان میں مذہبی انتہاء پسندی پر مبنی سوچ بھی جھلکتی نظر آئی تھی تاہم پنجاب پولیس کیلئے ضروری تھا کہ وہ ملزم کے اقبالی بیان کی روشنی میں فوری طور پر وقوعہ کی ایف آئی آر درج کرکے اور جائے وقوعہ کو محفوظ بنا کر تفتیش کا آغاز کرتی اور اس دوران متاثرہ فریق (عمران خان) کا بیان قلمبند کرکے ضروری سمجھتی تو تتمہ بیان کو بنیاد بنا کر ایف آئی آر میں فوجداری دفعات کا اضافہ کرتی۔
اس کیس میں جہاں پنجاب انتظامیہ اور پولیس کی دانستہ غفلت کی عکاسی ہوتی ہے وہیں یہ بھی المناک صورتحال ہے کہ متاثرہ فریق (عمران خان) کی جانب سے بھی اس کیس کو فوجداری کیس کے طور پر ڈیل کرنے کے بجائے اس پر سیاست شروع کر دی گئی جو ابھی تک جاری ہے۔ پولیس نے وقوعہ کے تین روز بعد بھی ایف آئی آر درج نہ کی تو چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس معاملہ کا نوٹس لے کر آئی جی پولیس پنجاب کو 24 گھنٹے کے اندر اندر ایف آئی آر درج کرنے کے احکام صادر کر دیئے جبکہ وزیراعظم شہبازشریف پہلے ہی چیف جسٹس سے فل کورٹ پر مبنی کمیشن سے اس وقوعہ کی تحقیقات کی استدعا کرچکے تھے۔ اب وزیرآباد پولیس کی مدعیت میں وقوعہ کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے جسے پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا ہے۔ عمران خان کا جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر تو اتفاق ہے مگر وہ اس کیس پر سیاست کرکے خود ہی کیس خراب کرنے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
یقیناً اسی تناظر میں وزیراعظم شہبازشریف کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو دوبارہ مراسلہ بھجوانے کی ضرورت محسوس ہوئی اس لئے اب صورتحال مزید خراب ہونے سے بچانے کیلئے جوڈیشل کمیشن کی فی الفور تشکیل وقت کا تقاضا ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ کمیشن کی کارروائی مکمل ہونے تک متاثرہ فریق (پی ٹی آئی) کی جانب سے صبروتحمل سے کام لیا جائے اور امن و امان میں کسی قسم کا خلل ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جوڈیشل کمیشن حقائق و شواہد کی روشنی میں ایف آئی آر میں ردوبدل کی سفارش بھی کر سکتا ہے۔ فریقین کی جانب سے کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور انتشار کی ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہو جس سے ہمارے دشمن کو ملک کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشوں کا دائرہ وسیع کرنے کا موقع ملے۔ ملک کی سلامتی اور خودمختاری سے بڑھ کر ہمیں اور کچھ بھی عزیز نہیں۔ عمران خان جمہوریت پسند قوتوں کیلئے اپنے دروازے کھلے ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں تو اس کیلئے وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور حکومت بھی ایسی فضا ہموار کرے کہ کسی فریق کیلئے مذاکرات کی میز پر ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے میں کوئی دقت محسوس نہ ہو۔