وزیر آباد وقوعہ کی ایف آئی آر کا اندراج 


 خدا خدا کر کے پاکستان کی تاریخ کے چند المناک مجرمانہ واقعات میں سے ایک انتہائی اہم واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ ایف آئی آر درج ہو ہی گئی۔ اگرچہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کے تحت آفیسر مہتمم تھانہ یا اس کی غیر موجودگی میں تھانے میں موجود دیگر آفیسر کا یہ فرض ہے کہ جیسے ہی اسے کسی قابل دست اندازی واقعے کی اطلاع ملے وہ بلا توقف اس وقوعے کی رپورٹ ایف آئی آر کے رجسٹر میں درج کرکے فورا تفتیش کا آغاز کردے۔ ایف آئی آر کے اندراج سے قبل اسے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ، فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی اور نیب جیسے اداروں کی طرح یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ قبل از اندراج مقدمہ، انکوائری کرکے اس امر کا تعین کرے کہ ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات درست ہیں یا نہیں یا جن ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے وہ واقعے میں ملوث ہیں یا نہیں۔ یہ سب کام اسے ایف آئی آر کے اندراج کے بعد دوران تفتیش کرنے ہوتے ہیں۔
بہرحال مذکورہ واقعے میں 154 ض ف کا یہ قانونی تقاضہ پورا نہیں کیا گیا۔ متاثرہ فریق، پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر مقدمہ نہ درج کرنے میں آئی جی کا قصور ہے یا پرویز الٰہی کی پنجاب کی حکومت اس کی ذمہ دار ہے یا دونوں فریق ہی کسی پریشر یا بزدلی کے سبب مدعی فریق کے موقف کے مطابق ایف آئی آر کا اندراج نہ کرنے کے ذمہ دار ہیں، آنے والے وقت میں سب پتہ چل جائے گا۔ تاہم اس بارے میں سپریم کوٹ کا کردار عجیب لگا ہے۔ بجائے اس کے کہ متاثرہ فریق اپنے موقف کے مطابق ایف آئی آر درج کروانے کے لئے جسٹس آف پیس (ایڈیشنل سیشن جج) وزیرآباد کے پاس 22A اور 22B کی تحت درخواست دیتا، سپریم کورٹ نے ایک ایسا حکم جاری کردیا کہ پولیس کو گرین کارڈ مل گیا کہ وہ 24 گھنٹے کے اندر اندر ایف آئی آر (جیسی چاہے) درج کر کے عدالت کو رپورٹ کرے۔ اب تاخیر تو اندراج مقدمہ میں پہلے ہی ہوجکی تھی لیکن سپریم کورٹ، جس کے پاس نہ یہ کیس تھا، نہ اس نے اس بارے میں کوئی ازخود نوٹس لے رکھا تھا کے اندراج مقدمہ کے حکم نے آئی جی اور پنجاب حکومت کا کام آسان کر دیا اور انہیں جواز مل گیا کہ وہ عمران خان یا پی ٹی آئی کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے جیسی چاہیں ایف آئی آر درج کرکے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کردیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، انہوں نے موقع پر پکڑے گئے ملزم ، نوید کو نامزد کرکے ایس ایچ او تھانہ سٹی وزیرآباد کی مدعیت میں مقدمہ درج کر دیا۔ 
ایف آئی آر جو درج ہوئی ہے میں خامیاں تو کئی ہیں لیکن ایف آئی آر کا کالم نمبر 5جس میں ایک ہی فقرے میں تین سوالوں کا جواب دینا ہوتا ہے کے جواب میں صرف ‘‘بلا توقف’’ تحریر کرنا کھلم کھلا حقائق کے برعکس ہے۔ کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ ایف آئی آر درخواست دینے کے چار دن بعد درج ہوئی۔ یہ کالم یہ بھی پوچھتا ہے کہ اگر وقوعہ کی اطلاع درج کرنے میں توقف ہوا ہے تو اس کی وجوہات بھی درج کی جائیں۔ تو اصل میں پولیس کو وجہ لکھنی چاہیے تھی کہ ایف آئی آر کے اندراج میں توقف کی وجہ کیا تھی۔ پھر اسی کالم نمبر 5میں یہ بھی درج ہے کہ اگر تفتیش کے سلسلے میں کوئی کارروائی ہوئی تو درج کریں۔ اب ایف آئی آر درج کرنے سے قبل تفتیش کے سلسلے میں کافی کچھ ہو چکا تھا، لیکن ایف آئی آر میں کسی بھی بات کا تذکرہ نہیں ہے۔ دوسری خامی یہ ہے کہ پولیس نے اپنی ایف آئی آر میں واضح طور پر یہ کہہ دیا کہ ملزم صرف ایک (نوید) تھا۔ اور جو معظم نامی شخص قتل ہوا وہ نوید ہی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ ایف آئی آر پڑھنے سے کسی بھی دوسرے ملزم کی موجودگی کی نفی ہوتی ہے۔ سب سے پہلے جو فائرنگ کا برسٹ چلا جس کی وجہ سے سٹیج پر کھڑے سب لوگ بیٹھ گئے کا ذکر شروع میں کرنے کی ضرورت تھی اور بعد میں نوید ملزم کا ذکر کرنا چاہیے تھا جسے پسٹل سے فائرنگ کرتے وقت پی ٹی آئی کے ایک کارکن حسن ابتسام نے پکڑنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے وہ مزید فائرنگ نہ کرسکا۔ اسی طرح کنٹینر پر موجود عمران خان سمیت گیارہ افراد کے زخمی ہونے کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن یہ تذکرہ نہ کیا گیا ہے کہ یہ لوگ فائر آرم سے زخمی ہوئے یا دوسری قسم کی چوٹوں سے۔ پھر ہو سکتا ہے کہ کچھ زخمی افراد کنٹینر سے نیچے کھڑے ہوں لیکن ایف آئی آر میں سبھی کو کنٹینر پر ظاہر کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں گولی لگنے سے مر جانے والے معظم کے سر میں بھی ہوسکتا ہے اوپر سے نیچے کی جانب گولی لگی ہو اور یہ گولی چھت پر کھڑے کسی دوسرے ملزم یا کنٹینر پر موجود کسی پولیس والے کی جانب سے حفاظت خود اختیاری کے تحت کیا گیا فائر ہو۔ لیکن اس چیز کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ اگر دوران تفتیش ایف آئی آر کے برعکس یہ اور اس قسم کی دوسری باتیں ثابت ہوئیں تو پورے کیس کا بیڑا غرق ہوسکتا ہے۔ 
 بہرحال جو ہونا تھا ہو چکا، جو جیسا چاہتے تھے ان کی حسب منشا ایف آئی آر بھی درج ہوگئی۔ اب جو بھی تفتیشی آفیسرز ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ متاثرہ فریق اور متاثرہ افراد کے بیانات حاصل کرنے کے بعد ان کے الزامات کے بارے میں بھی تفتیش کریں۔ خصوصی طور پر اس بارے میں کہ کیا نوید کے علاوہ کسی دوسرے ملزم یا حفاظت پر مامور پولیس اہلکار نے بھی فائرنگ کی۔ ملزم کو موقعے سے گھیر کر لے جانے والے افراد کون ہیں، وہ ملزم کو لے کر کہاں گئے، ملزم پولیس کے حوالے کب کیا گیا۔ ملزم کا بیان کس کے کیمرے یا موبائل فون سے ریکارڈ کیا گیا، بیان کی ریکارڈنگ کے وقت کون کون سے پولیس آفیسرز اور کس کس دیگر ادارے کے افراد موجود تھے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سب سے پہلے میڈیا کے کن افراد کو کس نے ملزم کا بیان ریلیز کرنے کے لئے بھیجا۔
مندرجہ بالا سوالات کے جواب کا حصول اتنا مشکل نہیں لیکن کیا ہم اپنی کمزور پولیس اور ڈرپوک پنجاب حکومت سے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ بہادرانہ اور پیشہ ورانہ تفتیش کرے گی اور جو حقائق اس کے سامنے آئیں گے انہیں چھپائے گی نہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بظاہر ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ لگتا ہے آئی جی اور وزیر اعلی پنجاب پر خوف کی ایک ایسی فضا طاری ہے جس نے ہر دو کے درمیان nexus پیدا کردیا ہے۔ واضح رہے کہ پولیس کے اعلی افسران جو صوبوں میں تعینات ہوتے ہیں، انہیں ویسے بھی صوبائی حکومت کی کوئی خاص پرواہ نہیں ہوتی۔ صوبائی حکومت انہیں زیادہ سے زیادہ عہدے سے ہٹا سکتی ہے۔ جبکہ مرکزی حکومت نہ صرف انہیں معطل کر سکتی ہے بلکہ انہیں سزا دینے کا اختیار بھی مرکزی حکومت ہی کے پاس ہے۔ ان حالات میں عدالت عظمیٰ کا چاہے کتنا بڑا انکوائری کمیشن کیوں نہ بن جائے، اس نے رپورٹ تو پولیس ایجنسیوں یا صوبائی حکومت ہی سے لینی ہے، خود بالخصوص ملزموں کی تفتیش تو نہیں کرنی۔ پھر حکومت کی مرضی ہے کہ وہ کمیشن کی رپورٹ شائع کرے یا نہ کرے۔ لہٰذا کمیشن کی تشکیل پر زور دینے کی بجائے ہمیں ایسے جرأت مند، قابل اور غیر جانبدار آفیسرز کی نگرانی میں تفتیش دینی ہوگی جن پر سب کا اتفاق ہو۔
اس واقعے میں ایک اور بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ بے گناہ لوگوں کو ایف آئی آر میں نامزد ہونے سے بچانے کے لئے کیا یہ ضروری نہیں کہ پولیس کو بھی اینٹی کرپشن، ایف آئی اے اور نیب کی طرح یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ بعض صورتوں میں اندراج مقدمہ سے قبل انکوائری کرے کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس شخص کا بھی نام غلط طور پر ایف آئی آر میں آجاتا ہے، چاہے وہ عام شخص ہو یا با اثر، وزیر اعظم ہو یا وزیر داخلہ یا پھر کسی سیکیورٹی ادارے کا اعلی افسر اسے بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا نام اگر ایف آئی آر سے دوران تفتیش نکل بھی جائے تب بھی دوسرا فریق عدالت سے پولیس کی اخراج رپورٹ کی تصدیق کے دوران پھر فریق بن کر وکیل مقرر کر کے پولیس کی اخراج مقدمہ یا اخراج نام نامزد ملزم کی مخالفت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس شخص کو ایف آئی آر میں نامزد ہونے کی وجہ سے جو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے بدنامی ملتی ہے وہ اپنی جگہ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ دفعہ 154 ضابطہ فوجداری میں ترمیم کی جائے اور پولیس کو بھی اندراج مقدمہ سے پہلے ہر ایسے مقدمے کی انکوائری کر نے کا اختیار ہو جس میں کسی کو درخواست دہندہ نے عدم ثبوت یا کمزور شہادت کی بنیاد پر نامزد کردیا ہو تاکہ بلا وجہ کسی کو مقدمے میں نامزد کرنے کی روش ختم ہو۔ 

ای پیپر دی نیشن