امراجالا
اصغر علی شاد
کسے معلو م نہیں کہ پاکستان کی معاشی پریشانیوں کا حل پائیدار اقتصادی پالیسیوں میں مضمر ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق تاریخ گواہ ہے کہ عام طور پر ملک میں معاشی رفتار اس وقت متاثر ہوتی ہے جب ملک میں کوئی نئی حکومت آتی ہے اور پچھلی پالیسیوں کو چھوڑ کر اپنے معاشی ایجنڈے کو لاگو کرتی ہے۔ جس کے نتیجے میں معاشی استحکام متاثر ہوتا ہے اور ان معاشی ہچکیوں کے نتیجے میں قلیل مدتی پالیسیوں اور فوری اصلاحات تعطل کا شکار ہوتی ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس قسم کی صورتحال میں ایک ایسے مستحکم اور مستقل اقتصادی پالیسی فریم ورک کا ہونا ضروری ہے، جو سیاسی تبدیلیوں سے مشروط نہ ہو اور جو سرمایہ کاروں کو طویل مدتی منصوبہ بندی کے لیے درکار اعتماد فراہم کر سکے۔ ماہرین کے مطابق اقتصادی پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے مجموعی اقتصادی ماڈل میں پائیدار اصلاحات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ برآمدات میں تنوع اور تجارت کو فروغ دینے سے پاکستان کو زرمبادلہ کمانے اور تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور ا س ضمن میں اقتصادی پالیسیاں ایک طویل المدتی وڑن کے ساتھ تیار کی جانی چاہئیں جس میں ملک کی اقتصادی صلاحیت، آبادیاتی رجحانات اور عالمی اقتصادی تبدیلیوں کو مدنظر رکھا جائے۔اسی تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس سلسلے میں تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان چارٹر آف اکانومی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور شفاف اور جوابدہ طرز حکمرانی اداروں میں اعتماد پیدا کرنے اور معاشی پالیسیوں کو مو¿ثر طریقے سے لاگو کرنے کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ بات توجہ کی حامل ہے کہ پاکستان اپنے منفرد محل وقوع کی وجہ سے خطے میں اہم جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے، جو جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور چین کے سنگم پر واقع ہے۔ علاوہ ازیں پاکستانCPEC میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے، جو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا ایک اہم منصوبہ ہے اور CPEC چین کے مغربی علاقوں کو پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے جوڑتا ہے، جس سے چین کو بحیرہ عرب تک رسائی ملتی ہے۔یاد رہے کہ و¿پاکستان میں زرخیز زمینیں ہیں اور زراعت کے لیے سازگار آب و ہوا ہے۔ یہ شعبہ جی ڈی پی میں 19.2 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے اور تقریباً 38.5 فیصد لیبر فورس کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ پاکستان خوراک اور فصلوں کے دنیا کے سب سے بڑے پروڈیوسر اور سپلائرز میں سے ایک ہے۔ پاکستان اس وقت سالانہ 4.4 بلین ڈالر مالیت کی زرعی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ o پاکستان میں ایک بڑی، نوجوان آبادی ہے جس میں ہنر مند افرادی قوت کی صلاحیت موجود ہے۔ پاکستان کی تقریباً 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر کی ہے، جب کہ 29 فیصد کا تعلق 15 سے 29 سال کی عمر کے طبقے سے ہے۔ پاکستان قوت خرید کی برابری کے لحاظ سے دنیا کی 23ویں بڑی معیشت ہے، جب کہ برائے نام جی ڈی پی کے لحاظ سے یہ 40ویں بڑی معیشت ہے۔
یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ قدرتی وسائل کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے وسائل سے مالا مال ممالک میں سے ایک ہے جس کے پاس کوئلہ، گیس، قیمتی پتھر، تانبا، نمک، معدنیات اور سونے کے وافر ذخائر ہیں۔ دیگر وسائل میں تیل، آئرن اور ایلومینیم شامل ہیں جو کسی بھی بڑھتی ہوئی معیشت کے لیے ناگزیر ہیں۔ پاکستان میں خطے اور ایشیا کا ایک بڑا اقتصادی کھلاڑی ہونے کے تمام تقاضے ہیں اور اس کی اقتصادی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، مستحکم اقتصادی پالیسیوں سے پاکستان کی معیشت 2047 تک 2 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ سکتی ہے البتہ یہ امر
افسوس ناک ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں سیاسی جماعتوں کی آپس کی لڑائی کی وجہ سے پاکستان کا سیاسی انتشار اپنے عروج کو پہنچ گیا ہے۔ ان کی خودغرضانہ پالیسیوں، متعصبانہ مفادات اور انتقامی سیاست نے پاکستان کو ایک معاشی اور سیاسی دلدل میں ڈال رکھا ہے۔ کسے معلوم نہیں سیاسی گروہ بندیوں نے زہریلے سیاسی ماحول کو فروغ دیا جو پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے نتیجہ خیز بحث/صحت مند سیاست میں رکاوٹ بن چکا ہے۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ عوامی نعروں اور سیاسی قیادت کی جارحانہ پالیسیوں نے اپنے دوستوں / اتحادیوں کے سامنے پاکستان کی بین الاقوامی حیثیت اور تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے۔ جس کے سدباب کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ مجبوراً مداخلت کرے اور پاکستان کو دوبارہ درست راستے پر ڈالنے کی سعی کرئے۔ اس سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ نے کثیر الجہتی اور واضح حکمت عملی بنائی جس کے مقاصد میں پاکستان کو معاشی طور پر ترقی دینا، ملک میں سیاسی استحکام لانا اورپاکستان کے بین الاقوامی قد کو بحال کرنا شامل ہیں۔ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ سبھی فریق اس حوالے سے اپنی اپنی ذمہ داریاں احسن ڈھنگ سے نبھائیں گے۔