باز گشت ....طارق محمود مرزا
ariqmmirza@hotmail.com
چند روز قبل ٹی وی پر ایک خبر پڑھی جا رہی تھی اس کے مطابق لاہو ر میں دو پڑوسیوں کے درمیان گاڑی پارک کرنے کی جگہ پر جھگڑا ہو گیا۔ جھگڑے کے نتیجے میں ایک نوجوان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور قاتل وہاں سے فرار ہو گیا۔ پولیس اسے تلاش کررہی ہے اُمید ہے اسے جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔اسی دن خبروں میں یہ بھی دکھایا گیا ایک ٹی وی ٹاک شو کے دو شرکا پہلے گالی گلوچ پر اتر آئے جب اس سے بھی ان کاغصہ سرد نہ ہوا تو پھر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ میزبان چھڑاتا ہی رہ گیا لیکن ان دو سیاستدانوں نے مکے بازی جاری رکھی۔ ہو سکتا ہے ان کا یہ مقابلہ ٹی وی اسٹیشن کے باہر فائرنگ اور قتل وغارت گری تک پہنچ گیا ہو کیونکہ آج کل ایسی ہی معمولی باتوں پر قتل بھی ہو جاتے ہیں۔خیر ٹی وی ٹاک شوز میں تو آج کل کیا کچھ نہیں ہو رہا ۔ اس پر بات کرنی شروع کر دی تودور تک چلی جائے گی۔ اختلاف رائے کوئی غلط یا انہونی بات نہیں، لیکن اختلاف رائے کو جھگڑے میں بدل دینا، کیمروں کے سامنے غلیظ الفاظ کا استعمال اور ہاتھا پائی پورے معاشرے کے اخلاقی زوال کی عکاسی کرتا ہے۔ مہذب معاشرے میں ا یسا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اس سے نہ صرف ہمارے رہنماﺅں کی ذہنی سطح کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ پورے معاشرے میں عدم برداشت، عدم تحمل اور صبر کا فقدان بھی نظر آتا ہے۔ کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں ملک میں روزانہ بے شما ر لڑائی جھگڑے، مار کٹائی اور قتل وغارت کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر تنازعات معمولی اور غیر اہم باتوں سے شروع ہوتے ہیں ۔ کبھی بچوں کی لڑائی پر، کبھی کھیل کود کے دوران ، کبھی شادی بیاہ میں اور کبھی سیاسی بحث مباحثے کے نتیجے میں شروع ہونے معمولی جھگڑے بڑھتے بڑھتے قتل وغارت تک پہنچ جاتے ہیں۔ کسی ایک فردکے غصے کی چنگاری دو خاندانوں کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے۔ خاندان کے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں۔ کچھ بے گناہ موت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں کچھ پھانسی پر لٹک کر اپنا اور اپنے خاندان کا ستیاناس کر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں جیلوں میں ایسے لاکھوں لوگ بند ہیں جو وقتی اشتعال کی وجہ سے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جس میں سے کسی کو شدید زخمی کرنا یا قتل کر دینا شامل ہے۔ بعض لوگ تو ایک دوسرے سے واقف تک نہیں ہوتے۔ راہ چلتے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور چھریاں یا بندوقیں چل جاتی ہیں۔ بعد میں یہ مجرم ساری زندگی سلاخوں کے پیچھے گزارتے ہوئے ضرور سوچتے ہوں گے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا تھا۔
وقتی اشتعال سے جو جھگڑے رونما ہوتے ہیں وہ بعد میں خاندانی دشمنیوں میںتبدیل ہو جاتے ہیں۔ دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کے گاﺅں میں دو خاندانوں میں ایک چھوٹے سے کیکر کے درخت کی ملکیت پر جھگڑا شروع ہو گیا۔ یہ درخت دو خاندانوں کے کھیتوں کے درمیان واقع منڈیر پر واقع تھا۔ دونوں اس پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے تھے اس درخت کی وجہ سے ان خاندانوں کے درمیان جو لڑائی شروع ہوئی وہ پچھلے تیس سال سے جاری ہے اور اس میں دونوں خاندانوں کے تیرہ افراد قتل ہو چکے ہیں اور تین کو پھانسی ہو چکی ہے۔ اب دونوں خاندانوں میں کوئی مرد نہیں بچا جسے وہ قتل کر سکیں۔جب نفرت اور دشمنی اس حد تک بڑھ جائے تو اس پر قابو پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کوئی ثالت کوئی عدالت اور کوئی جج اس عداوت کو ختم نہیں کر سکتا جب تک فریقین خودنہ ختم کرنا چاہیں۔ ان دشمنیوں میں لوگ اندھے ہو جاتے ہیں۔ وہ فریق مخالف پر حملہ کرنے سے پہلے یہ بھی نہیں سوچتے کہ خود ان کے خاندان اور بیوی بچوں پر اس کے کیا اثرات ہوں گے۔وقتی اشتعال ،دشمنی اور بدلہ لینے کی روایت حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں سے شروع ہو کر آج تک قائم ہے۔ جس معاشرے میں تعلیم کی کمی ہو، قبائلی، لسانی اور مذہبی عصبیت زوروں پر ہو وہاں یہ برائی اپنا راستہ جلد بنا لیتی ہے۔ معاشی اور معاشرتی بے انصافی، بے روزگاری ، غربت، دِین سے دوری اورلاقانونیت ان مسائل کو ہوا دیتی ہے ۔اسلام سے پہلے عربوں میں یہ برائی عام تھی۔ ظہورِ اسلام سے پہلے عربوں میں صدیوں پرانی دشمنیاں، بے بنیاد باتوں پر قتل وغارت کا لامتناہی سلسلہ اور قبائلی عصبیت کا راج تھا۔ اسلام نے ان عصبیتوں پر کاری ضرب لگائی ۔ پیغمبراسلام نے خطبہِ حجة الوداع میں جو تاریخی ارشادات فرمائے اس میں اپنے قبیلے کے تمام قتل جس میں آپ کے چچا کا قتل بھی شامل تھا، معاف کرنے کا اعلان کیا۔اس اعلان سے اسلامی معاشرے میں اخوت و محبت سے زندگی گزارنے کا نیا دور شروع ہوا اور عصبیتیں اور نفرتیں محبتوں میں بدل گئیں۔
ہمارے معاشرے میں صبر، تحمل اور رواداری کے جس فقدان کا آج سامنا ہے ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ آج سے تیس سال پہلے بھی گاہے بہ گاہے ایسے واقعات ہوتے تھے لیکن ان کا تناسب یہ نہیں تھا۔ اس دور میں اگر کسی بات پر جھگڑا ہو بھی جاتا تھا تو وہ ایک حد سے آگے نہیں بڑھتا تھا۔ زیادہ تر جھگڑے زبانی تو تو میں میں تک محدود رہتے تھے۔ ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھانے سے پہلے لوگ سو دفعہ سوچتے تھے آج کل ہاتھ تو درکنار لوگ ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔عرب کے بازار میں ایک بزرگ گزر رہے تھے انہوں نے دیکھا کہ ایک عالمِ دین نظر آنے والے شخص کو کچھ لوگ سربازار بے عزت کر رہے ہیں۔ وہ عالمِ دین بھی اُن لوگوںسے الجھ رہے تھے کسی نے بزرگ کو بتایا کی یہ بزرگ عالم دین ہیں اور یہ لڑائی دینی بحث کے نتیجے میں ہو رہی ہے۔ عالم نے کہا کہ نہ تو یہ بزرگ ہیں اور نہ یہ عالم دین۔ اگر ان میں بڑھاپے کے ساتھ بزرگی بھی آ تی اور جہالت کی جگہ علم ہوتا تو وہ اس طرح سربازار رسوا نہ ہوتے۔ وہ سربازارلڑائی جھگڑے میں ہر گز نہ الجھتے بلکہ اس سے کترا کے نکل جاتے۔
اللہ کے پیارے نبی نے فرمایا تھا۔ طاقت ورو ہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقت ور وہ ہوتا ہے جو غصے پر قابو پالے۔ جلد غصہ آنا اور اشتعال انسان کی کمزوری اور جہالت کو ظاہر کرتا ہے۔جبکہ برداشت ، تحمل اور برد باری علم اور دانش کے ساتھ بہادری کی نشانی ہے ۔اس سلسلے میں دین کے ساتھ وابستگی ، حصولِ علم اور گھر اور مدرسوں میںاخلاقی تربیت معاشرے میں بہتری لا سکتی ہے۔ اساتذہ، والدین اور ذرائع ابلاغ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نفس پر قابو پانے کی ہمت اور طاقت عطافرمائے۔ آمین
غصہ اور اشتعال کمزوری کی علامت
Nov 10, 2023