اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ مہم

Nov 10, 2023

جویریہ اعجاز۔۔۔۔ہست و بود

غزہ کے عام شہریوں پر بے رحمانہ اور سفاکانہ حملے کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کو ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ،تاحال جنگ بندی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ۔ شہدا کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہو چکی اور غزہ میں لاکھوں افراد محصور ہیں۔ صدمے اورغصے کی ملی جلی کیفیات کے زیر اثر دنیا بھر اور خاص طور پر مسلم ممالک کے عوام اپنے اپنے طور پر کچھ اقدامات کے زریعے اسرائیل کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ پوری دنیا میں سوشل میڈیا کے زریعے اسرائیلی اور یہودی ملکیت رکھنے والے برانڈز اور مصنوعات کے مکمل بائیکاٹ کا پیغام دیا جا رہا ہے ۔یہ پیغام کئی ممالک میں سنجیدہ مہم صورت اختیار کر چکا ۔ اسرائیل کی فلسطینی بے گناہ نہتے عوام پر لشکر کشی اور ظلم و جبر دنیا میں بسنے والے ہر امن پسند انسان نے مسترد کر دیا ہے ۔پاکستان میں اس مہم کے حوالے سے دو طرح کے نقطہ نظر دیکھنے میں آرہے ہیں ایک طرف وہ افراد ہیں جو ہر صورت اس مہم کو اپنانے پر زور دے رہے ہیں دوسری طرف وہ ہیں جن کے خیال میں پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ براہ راست کوئی تجارتی تعلقات نہیں ہیں تو معاشی نقصان کا ہدف کیسے حاصل ہو گا ۔ آج کی معاہداتی دنیا کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر رواں دواں ہے ۔معاشی استحکام دنیا میں آپ کا مرتبہ اور آپ کے ہر قدم کا جواز پیش کرنے کے لیے کافی ہے ۔ امریکہ نے اسرائیل کے لیے پندرہ ارب ڈالر کی مزید امداد کا اعلان کیا اور امریکی صدر کا سکائی نیوز کو دیا جانے والا بیان کہ فلسطینی اپنی ہلاکتوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں دراصل دنیا کے لیے پیغام ہے کہ ہم طاقتور ہیں اور اس نسل کشی کی پشت پناہی کر رہے ہیں ۔ انسانی تاریخ میں بے شمار جنگیں لڑی گئیں جن کے ظاہر ی مقاصد کے علاوہ بین الاقوامی اشرافیہ کے خاص سیاسی اور معاشی مقاصد رہےہیں ۔موجودہ مہذب صدی کی پہلی جنگ کا آغاز افغانستان میں ہوا ۔قدیم دور سے وقتا فوقتا مذہب جغرافیہ ، قوم اور معیشت کے لیے لڑی جانے والی جنگیں یہ ثابت کر رہی ہیں کہ انسان کے تہذیب یافتہ ہونے کا خیال محض خام خیال ہی ہے ۔ 
غزہ میں جاری حالیہ ظلم و جبر کا کوئی بھی قصاص ناکافی ہو گا لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے کہ معیشت پر کاری ضرب کے زریعے ظلم و جبر کے لیے مہیا کی جانے والی کمک کو منقطع یا کمزور ضرور کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے لیے حکومتی اور اسلامی برادری کی سطح پر موثر اقدامات کی ضرورت ہے ۔معیشت کو نقصان پہنچانے کی طاقت آج کی دنیا میں کتنی رعب داب کی حامل ہے اس کا اندازہ چینی عوام اور حکومت کے اس متحدہ طرز عمل سے لگایا جا سکتا ہے جب گزشتہ دھائی میں چین نے کئی غیر ملکی کمپنیوں کا بائیکاٹ کیا اور چینی عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے پرکئی غیر ملکی کمپنیوں کو چینی عوام سے معذرت کرنا پڑی۔ 2013 میں ایپل جیسی کمپنی کے سی ای او ٹم کک نے کمپنی کی ویب سائٹ پر چینی صارفین سے معافی مانگی کیونکہ چینی عوام نے شکایت کی کہ ایپل ٹیم کا رویہ چینی صارفین سے نہایت متکبرانہ ہے اور انہیں دیگر ممالک کی نسبت کم سہولیات مہیا کہ جاتی ہیں ۔ شکایات کو بیجنگ کے سرکاری میڈیا پر بھی پیش کیا گیا سرکاری اور عوامی سطح پر بائیکاٹ کیا گیا ۔اسی طرح معروف فرنچ برانڈ لوئس ووٹن کو بھی چینی شہریوں سے امتیاز برتنے کے الزام پر معذرت کرنا پڑی ۔ حکومتی یا سرکاری سطح پر بائیکاٹ زیادہ کارگر ثابت ہوتا ہے مگر انفرادی اور گروہی سطح پر بھی چند اقدامات کر کے ایک موثر مہم چلائی جا سکتی ہے ۔غیر ملکی کمپنیاں اور برانڈز عام طور پر فرنچائز سے 20 پر بیس یا پچیس سال کا معائدہ طے کرتے ہیں جس میں معاوضے کے تحت فرنچائزز کو برانڈ نام اور اس کے سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے ریسٹورنٹ چلانے کی اجازت ہوتی ہے اور سیل کا بھی طے شدہ مخصوص حصہ وصول کیا جاتا ہے ۔ اس سے یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ اگر مکمل بائیکاٹ کیا جائے تو ماہانہ یا سالانہ وصول کیا جانے والا حصہ کم ہو گا اور شئیرز کی قیمت بھی گر سکتی ہے ۔ انٹر نیشنل برانڈ سٹاربکس کے ملازمین نے فلسطینیوں کے ساتھ نہ صرف اظہار یکجہتی کیا ہے بلکہ دیگر لیبر یونینوں سے مطالبہ کیا ہے ہیں کہ وہ بھی ظلم کے خلاف اکھٹے ہوں ۔ ترکیہ کہ ایر لائن نے اندرونی پروازوں پر اسرائیلی مصنوعات اور مشروبات پیش کرنے پر پابندی لگا دی ہے ۔ازبکستان نے سرکاری سطح پر اسرائیلی مصنوعات کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے ۔ جہاں تک یہ مسئلہ کہ بائیکاٹ سے 
پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچے گا تو ایسا مشکل ہے کیونکہ یہ تمام بین اقوامی برانڈز ہماری روزمرہ ضروریات زندگی کے لیے لازمی نہیں ہیں فوڈ برانڈز کے علاوہ درآمد کی جانے والی دیگر اشیا کا بھی متبادل تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ پاکستان بزنس فورم کے مطابق اٹھارہ سے زائد اشیائ کی فروخت میں پچاس فیصد کمی ہوئی ہے بڑی بڑی سپر مارکیٹس اور مالز پر پابندی اور بائیکاٹ جاری رہنا چاہیے ۔مِن حَیث± القَوم ہمارا حافظہ بہت کمزور ہے بڑے سے بڑا واقعہ بھلانے میں ہمیں چند دن درکار ہوتے ہیں ۔اس طرح کی مہمات کے لیے ہر سطح پر پختہ عزم و ارادہ اور ثابت قدم رہنا ضروری ہے تاکہ خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جا سکیں ۔ 

مزیدخبریں