کیا ٹی ٹی پی کا افغان طالبان سے گٹھ جوڑ ہوگیا ہے ؟

Nov 10, 2023

خالد بیگ

اگررواں ماہ نومبر 2023کے پہلے ہفتے میں ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں اور ان میں پاک فوج کی شہادتوں پر نظر ڈالی جائے تو یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں پہلے سے متحرک دہشت گرد سرحد پار افغانستان سے موثر حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ 3نومبر کو بلوچستان کے ضلع گوادر کے علاقہ پسنی سے اور ماڑہ جانیوالی سڑک پر دہشت گردوں نے گھات لگاکر پاک فوج کی دو گاڑیوں پر حملہ کردیا۔ امریکی افواج کے زیراستعمال رہنے والے جدید خود کار اسلحہ کی فائرنگ کی زد میں آکر پاک فوج کے 14جوان شہد ہوگئے۔ اسی روز ڈیرہ اسماعیل خان میں یکے بعد دیگرے مختلف مقامات پر ہونے والے 2بم دھماکوں میں 5افراد شہید ہوگئے جبکہ دو پولیس اہلکاروں سمیت 31 افراد زخمی ہوئے اور خبیر پی کے میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں پاک فوج کے تین جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ دوسرے روز 4نومبر کو 9دہشت گردوں کے مسلح گروہ نے میانوالی ایئربیس پر حملہ کردیا۔ یہ سب بھی جدید ہلکے تباہ کن امریکی ساختہ ہتھیاروں سے لیس تھے۔ یہ تمام دہشت گرد صبح سورج طلوع ہونے سے 2گھنٹے قبل سیڑھی لگا کر ائیربیس کی عمارت میں داخل ہوئے۔ دہشت گردوں نے فوج کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔ایئربیس میں موجود سیکورٹی کے اہلکاروں نے 3دہشت گردوں کو وہیں دیوار کے قریب ڈھیر کردیا۔ 6دہشت گرد شدید فائرنگ اور رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتظامی دفاتر کے قریب پہنچے تو انہیں اسی جگہ گھیر کر کیفر کردار کو پہنچادیا گیا۔ 5نومبر کو کے پی کے ضلع خبیر کی وادی تیراہ کے علاقے سنڈاپال سیاہ باغرے میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے میں پاک فوج کے لیفٹینٹ کرنل محمدحسن اور تین جوان شہید ہوگئے۔ 
اسی تناظر میں اگر پاکستان میں غیر قانونی طورپر قیام پذیر غیر ملکیوں کو نکالنے کے حوالے سے حکومت پاکستان کے اعلان کے بعد افغان وزیراعظم اور وزیردفاع کے پاکستان مخالف بیانات کاجائزہ لیاجائے تو ان کا لب و لہجہ دوستوں کا والا ہرگز نہیں تھا۔ سوشل میڈیا پر پاک فوج اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ ہوا (جس میں تضحیک آمیز لب و لہجہ اختیار کیا گیا)۔ اسکے ساتھ ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ ، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی جیسی لسانیت کی بنیاد پر سیاست کرنے والی قوم پرست جماعتوں کے رد عمل پر نظر ڈالیں اور اس حوالے سے بھارتی الیکٹرانک میڈیا پر افغانیوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے جس انداز سے پاکستان کو افغان دشمن قرار دیکر افغانیوں کے دلوں میں پاکستان مخالف جذبات ابھارنے کی کوشش کی گئی وہ بلاوجہ نہیں ہے۔ ان سب کا بغورجائزہ لیاجائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر قیام پذیر افغان شہریوں کی پاکستان میں موجودگی سے افغان طالبان کے گہرے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں گزشتہ 2دہائیوں میں پاکستان کے اندر جاری دہشتگردی اور اس میں دہشت گردوں کیلئے سہولت کاری کے سلسلے میں کی گئی تحقیقات کے مندرجات ظاہرکرتے ہیں کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر قیام پذیر افغان مہاجرین میں سے کچھ عناصر یا تو براہ راست دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں یا دہشت گردوں کی سہولت کاری کے مرتکب پائے گئے۔ پھر یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ اگست 2019 میں امریکی ونیٹو فورسسز کی افغانستان سے رخصتی کے بعد کابل میں برسراقتدار آنیوالی افغان عبوری حکومت پاکستان پر تحریک طالبان پاکستان سے بات چیت پر زور دیتی رہی اور دہشت گردی کی ہر بڑی واردات میں جب پاک فوج کے خلاف تحریک طالبان کے دہشت گردوں کی طرف سے امریکی افواج کے چھوڑے ہوئے جدید اسلحہ کا استعمال سامنے آنے پر پاکستان کی طرف سے تحفظات کا اظہار ہوا تو اس پر افغان عبوری حکومت نے خاموشی اختیار کیے رکھی جو کہ انتہائی حیران کن اور بڑا ہی معنی خیز رویہ تھا۔اب یہ کہنا کہ امریکہ کی طرف سے کابل میں چھوڑاہوا اسلحہ افغانستان میں کھلے عام فروخت ہو رہا ہے تو یہ بات لطیفے سے کم نہیں۔ایک امریکی نیوز ویب سائٹ یہ انکشاف کرچکی ہے کہ افغان عبوری حکومت میں شامل بہت سے گروہوں کے لیڈران پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکیوں کو ملک سے نکالنے کے فیصلے سے ناخوش ہیں اور بہت غصے میں ہیں۔ اس کی وجہ انکے پاکستان میں کاروبار ‘ بے نامی جائیدادوں‘ اسلحہ اور منشیات کی سمگلنگ ‘ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور پاکستان کے مدارس سے طلباءکی بھرتی جیسے مفادات کو پہنچنے والی زد ہے اور ان کیلئے یہ نقصان ناقابل برداشت ہے۔ امریکی نیوز ویب سائٹ کے مطابق تحریک طالبان افغانستان کے بہت سے لیڈران عرصہ 30-25 سال سے پاکستان سے معاشی مفادات حاصل کررہے تھے۔ پاکستان کی حکومتیں بھی اس سے باخبر تھیں لیکن پاکستان کی طرف سے اس میں کبھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب گذشتہ ماہ کے آغاز میں پاکستان کی نگران حکومت نے غیر ملکیوں کو نکالنے کیلئے 31 اکتوبر 2023 ءکی ڈیڈ لائن مقرر کر دی اور اعلان کیاگیا کہ غیر قانونی طور پر قیام پذیر غیر ملکی 31 اکتوبر تک پاکستان چھوڑ دیں تو افغان عبوری حکومت میں شامل بااثر لیڈران کو یقین تھا کہ پاکستان کی حکومت ماضی کی طرح ان کے پاکستان میں مفادت پر اپنی آنکھیں بند رکھے گی۔ تاہم جب پاکستان نے اس پر لچک دکھانے سے انکار کر دیا تو تحریک طالبان افغانستان کا تحریک طالبان پاکستان سے گٹھ جوڑ فطری بات تھی جس کانتیجہ پاکستان میں دہشت گردی کی پے در پے کارروائیوں کی صورت میں سامنے آیا ہے۔پاکستان نے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک سے نکالنے کیلئے کوئی جرم یا انوکھا کام نہیں کیا بلکہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق غیر ملکیوں کو اپنے وطن واپس جانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی۔ یہ پاکستان کا قانونی حق تھا کہ وہ اپنی سرحدوں پر سفری دستاویزات اور پاسپورٹ کے ذریعے کنٹرول نافذ کرے۔ اپنے ملک میں منشیات اور سمگلنگ کے دیگر ذرائع پر کریک ڈاﺅن کے علاوہ پاکستان کے معاشی استحکام کیلئے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو ضابطے میں لائے۔ اگر اس سے پاکستان تحریک طالبان افغانستان کے مفادات پر زد پڑتی ہے تو پاکستان افغانستان کیلئے مزید قربانیوں کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ خراب معیشت کے علاوہ براستہ افغانستان ختم نہ ہونیوالے دہشت گردی کے سلسلے کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں رہائش پذیر غیر قانونی تارکین وطن کو ملک سے رخصت کیا جائے جس کیلئے ریاست پاکستان کی طرف سے مذکورہ تمام اقدامات بین الاقوامی ضابطوں کے عین مطابق اور اپنے شہریوں کی سماجی بہبود اور تحفظ کیلئے ناگزیر ہوچکے ہیں۔ غیر قانونی قیام پذیر افراد کا تعلق چاہے کسی بھی ملک سے ہویہ افغان شہری ہوں‘ ان کا تعلق ٹی ٹی پی یا افغان طالبان سے ہو‘ ان میں سے کوئی بھی رعایت کا مستحق نہیں۔ویسے بھی پاکستان دہشت گردی کی صورت میں آئے روز کی شہادتوں کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔

مزیدخبریں