یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے ”اردو ادب اورتحریک آزادی فلسطین“کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھاتھا اور اس کی اشاعت کے لیے کسی پبلشر کی تلاش میں تھا،لائبریری میں کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک دن میری نظرامجداسلام امجد کی کتاب پرپڑی،یہ کتاب فلسطین میں اسرائیل کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی اور عرب حکمرانوں کی بے حسی پر لکھی گئی عرب شعرا کی نظموں کے اردو تراجم پر مشتمل تھی،اس میں بڑے اہتمام سے اسلام آباد میں موجود فلسطین کے کلچرل سنٹر کے ناظم کا خیرسگالی کے جذبے تحت تحریر کیے گئے خط کا عکس بھی چھاپا گیا تھا،یہ تصورمجھے اچھالگا کہ میں اپنی کتاب کیلئے بھی کوئی ایسی رائے لے لوں،اسی وقت اپنے ایک شاگرد کے ذریعے(جو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کررہا تھا) فلسطینی سفارت خانے سے رابطہ کیا۔فون پر دوسری طرف کلچرل اتاشی حسنی ابوغوش تھے،میں نے جب اپنی خواہش ان کے سامنے رکھی تو سیدی سیدی کہتے ہوئے میری کاوش کوسراہنے لگے،ڈاک کے ذریعے سے مسودہ انھیں بھجوا کر کچھ دنوں بعد رابطہ کیا گیا تو سردجہنم جیسا ایک بڑا گلیشیر گفتگو کے راستے میں حائل تھا،وہ بات کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے۔اس سرد مہری کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اسلام آباد کا سفارت خانہ پی۔ایل۔اوکے زیرانصرام ہے جب کہ میں نے اپنی کتاب میں حماس کی تعریف کردی ہے،اس لیے کسی قسم کی توقع ان سے نہ رکھی جائے،یہ بات خاصی پرانی ہے لیکن جب بھی فلسطین میں صہیونیوں کا رقص ابلیس شروع ہوتا ہے اور تھیوڈرہرزل کے خوابوں کی تعبیرکو مزیدتوسیع دینے کے رسیا عام فلسطینی شہری پرعرصہ حیات تنگ کرتے ہیں، مجھے سیدی حسنی ابوغوش اوراسلام آبادمیں فلسطینی سفارت خانے کی سرد مہری یاد آجاتی ہے۔
مسنداقتدار کوعزیز جاننے والے وہ عرب حکمران بھی یادآتے ہیں جن کی حیثیت موجودہ دنیا میں ریت سے بنے ابوالہول سے زیادہ نہیں۔سچ پوچھیں توعام فلسطینی کے لیے صحیح معنوں میں آواز اٹھانے والا اب کوئی نہیں، ۷۶۹۱ءمیں میں مسجداقصٰی کی آتش زدگی کے بعد طلوع ہونے والا عرب قومیت کا سورج ڈوب چکا ہے،محض اسکے شفق رنگ لہو کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔لاہور میں منعقد ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس پر گائے جانیوالے نغمے ”ہم تابہ ابد سعی وتغیرکے ولی ہیں“کی لے بھی اب بکھر چکی ہے،اسکے استعمال ہونیوالے آلات موسیقی اب باقی نہیں رہے، اب تک عالمی منظرنامے میں تبدیلیوں کے ایسے طوفان آئے ہیں جنھوں نے نظریات و تصورات کی دنیا کا” تورا بورا“کردیا ہے۔بیسویں صدی کے آغازکے پارسی تھیٹرمیں آغا حشر کا ڈراما ”یہودی کی بیٹی“پرفارم کیا گیاتھا،اس ڈرامے میں ہولوکاسٹ کے نتیجے میں قتل کیے جانے والے خاندان کی واحدزندہ بچ جانے والی بیٹی کی زندگی کو موضوع بنایا گیاتھا،لوگ اس ڈرامے کو دیکھتے اور نم دیدہ پنڈال سے باہر نکلتے۔اب ایسا نہیں ہوسکتا،اسرائیلی ظلم وستم کے ردعمل میں دنیا کے مختلف ملکوں میں نفرت بھی پیدا ہوئی۔عرب دنیا تیل کے سیال خزانے کی معدوم ہوتی چمک اور مغربی حسیناو¿ں کے بدن کی مہک میں فلسطین اور اہل فلسطین کو بھول جائیں لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔
ہم پاکستانی(بلکہ برصغیرکے) مسلمانوں کے اجتماعی لاشعور میں عالم اسلام کے مسائل سے ہمدردی شامل ہے،گذشتہ صدی کے ابتدائی نصف میں خلافت کے خاتمے،جنگ بلقان،طرابلس الغرب پر اطالیہ کے حملے اور حضرت امام رضا کے مزار پر روس کے توپ خانے کا حملہ اور اس کے نتیجے میں تحریک خلافت اور انجمن حمایت اسلام کے جلسوں وغیرہ نے ”انما المومنون اخوة“ کے تصور کو ابھارا،بین الاقوامی سازشوں نے اسرائیل کو جنم دیا تو عوام الناس کے ذہنوں میں امت مرحومہ کی بے بسی اور بھی راسخ ہوگئی،۔ فلسطین اور اہل فلسطین کے غم واندوہ کی منظرکشی اور اصلاح احوال کے لیے اردو شعرا نے اسی پس منظر میں ایک شان دار شعری روایت کی بنیاد رکھی۔اردو شعرا نے دنیا کے مختلف گوشوں میں ”راندہ درگاہ“بنائے جانے والے مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔جن اردو شعرا نے فلسطین اور اس کے رستے ہوئے زخموں کو مذہبی یا خالص انسانی ہمدردی کے تحت اپنی شاعری کا عنوان بنایا ہے۔
ان میں علامہ محمد اقبال،فیض احمدفیض،نعیم صدیقی، احمدندیم قاسمی،رئیس امروہوی،ن م راشد، ابن انشا، حبیب جالب،احمدفراز،ظہیر کاشمیری، صہبا اختر، ضمیر جعفری،یوسف ظفر، خاطر غزنوی، اداجعفری،شہزاد احمد،اسلم فرخی،عشرت ظفر،صلاح الدین پرویز،خالدسہیل،سلطان رشک، محمد فیروزشاہ، ایزد عزیز، اعتبارساجد،ذی شان ساحل، کشورناہید، خالد علیم، عامر سہیل،تقی عابدی،مختارالدین احمد،سلیم شہزاد اور دیگر بہت سے شعرا کے نام شامل ہیں۔
شعرا کی اس فہرست میں اقبال اور فیض نمایاں ہیں،اقبال کے دورمیں اسرائیل کا قیام توعمل میں نہیں آیاتھا البتہ حالات سنگین ہوتے جارہے تھے۔ اقبال کی ان واقعات پر گہری نظرتھی۔وہ فلسطینی عوام کی حمایت کیلئے جیل میں جانے کیلئے بھی تیار تھے۔ انھوں نے اس ظلم پر نہ صرف برطانیہ اور مجلس اقوام عالم کو ذمہ دار ٹھہرایا بلکہ عرب حکمرانوں کی پالیسیوں پر کھلی تنقیدکی۔انھوں نے شور وغوغا کی بجائے منطقیت اور استدلالیت کا راستہ منتخب کیا، علامہ اقبال دوسری گول میز کانفرنس سے واپسی کے سفر میں مصرسے بہ ذریعہ ریل فلسطین روانہ ہوئے اور وہاں نو روز کا قیام بھی کیا۔ اس سفر میں مولانا غلام رسول مہر، مولانا شوکت علی اور حافظ عبدالرحمن ان کے ہم رکاب تھے۔ اس دَورے کا مقصد مفتی اعظم فلسطین، سید امین الحسینی کی دعوت پر معتمر عالم اسلامی میں شریک ہونا تھا۔فیض احمدفیض تو تحریک آزادی فلسطین کے لیڈر یاسر عرفات کے دوست تھے اور ایفروایشیائی ادیبوں کے رسالے ”لوٹس“کے انگریزی سیکشن کی ادارت کے دنوں میں انکے فلسطینی شاعروں محمود درویش،سمیح القاسم اور معین بسیسو وغیرہ سے دوستانہ تعلقات رہے۔اردو شعرا نے اپنے طور پر آزادی وحریت کی اس تحریک میں جہاد بالقلم کے ذریعے حصہ ڈالا ہے،یہ روایت جاری وساری ہے۔اسکی ایک مثال حال ہی میں معروف شاعراور ادیب سید فراست رضوی کی نظموں کے مجموعے”سلام فلسطین“کی اشاعت ہے۔اس کتاب میں شامل تمام نظمیں فلسطین کے دکھوں کے بیانیہ کے ساتھ ساتھ عالمی استعمار کی عیاریوں اور صہیونی طاقتوں کے مذموم ارادوں کو بے نقاب کرتی ہیں۔یہ شعری مجموعہ کرب آمیزلہجے میں ظلم وستم کی وارداتوں کی عکاسی کرتا ہے۔سیدفراست رضوی کی ایک نظم”یہودی بستیاں“ دیکھیے:
یہودی بستیاں تعمیر ہوتی جارہی ہیں فلسطینی مکینوں کو نکالا جارہاہے۔
انکی فصلوں اور باغوں کو جلایا جاریا ہے۔مکانوں کو گرایا جارہا ہے۔
جو صدیوں سے یہاں آباد ہیں اہل فلسطیں
انھیں یہ سامراجی حیلہ پرورراندہءدرگاہ کرنے پر تلے ہیں
فلسطینی خود اپنی سرزمیں پر غیر بن کر رہ گئے ہیں
یہودی بستیاں انسانیت کے قاتلوں کی بستیاں ہیں
یہ استعمار کے سازش گزیدہ سلسلوں کی بستیاں ہیں
٭....٭....٭
سلام فلسطین
Nov 10, 2023