میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے!

علامہ اقبال نے فلسطین کولے کر جن خدشات کا اظہارکیا تھا اور فلسطینیوں کو جوہمت دلائی تھی ان کا ثبوت آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔مواخات مدینہ کے تناظرمیں غزہ کے حالات پرگذشتہ دنوں ایک خصوصی تقریب میں شرکت کا موقعہ ملا جس میں مقررین نےاس مسلے پر اور اسکے حل پراظہار خیال کیا اور برملا کہا گیاکہ اور ہمارے حکمران ایمان کی کمزوری کے باعث ہم ابھی بھی غزہ کے معاملے میں غیر مسلموں سے متوقع ہیں کہ وہ ہماری مدد کریں۔ اگر ہم ہمت کریں تو اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے نصرمن اللہ کا ذکر بھی کیاگیا جس میں افغانستان کی مثال دی کہ ان افغانستانیوں نے خالی ہاتھوں سے 20 سال لڑے اور آزادی حاصل کرلی اس کے بعد انہوں نے غزہ میں ہونے والی اللہ تعالی کی مددکا تذکرہ کیا کہ ایک اسرائیلی جرنیل کے مطابق مجاہدین غزہ کا پاو¿ڈر سے بنا بارود اسرائیلی ٹینکوں کو آگ لگاکرتباہ کر دیتا ہے اس کے بعد غزہ کی زیرزمین سرنگوں کا تذکرہ کیا جہاں حماس والے یرغمالیوں کو رکھتے ہیں ، محض کچھ علم کے ساتھ وہ یہ سب کر سکتے ہیں تو یقینا یہ اللہ تعالی ان کی مزید مددپربھی قادرہے، دشمن ہمارے دروازے پر ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو تباہ کیا جائے یقینا سب دجال اکٹھے ہیں انہوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے 27 غزوات میں حصہ لیا اور 18 میں لڑائی کے بغیر ہی فتح یاب ہوئے بس نو غزوات میں تلوار اٹھانی پڑی اور حماس والے بھی کمزور پر ہاتھ نہیں اٹھاتے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق وہ اپنی جنگ لڑتے ہیں۔ ڈاکٹر حسن شاہد نے اس کے ساتھ ڈبلیو ایچ او،ائی ایم ایف اوراقوام متحدہ کوشدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ سب سودخور اور یہودی ہیں اوراسلام کے خلاف ان سب کا اکٹھ ہے۔جناب بزرگ شاہ الازہری نے خطاب کے موادپرایک سوال اٹھایاجس کاتفصیلی جواب دیاگیا۔ خطاب پرتبصرہ کرتے ہوئے محترمہ عیشاخالدایڈوکیٹ نے خطاب کی تعریف کی اورکہاکہ فاضل مقررنے حالات کابالکل درست نقشہ کھینچاہے اور وہی حل بتایا ہے جوقرآن و سنت سے ثابت ہے۔ جناب بزرگ شاہ الازہری نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےاتحادامت کا تصور دیا کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی پاک نے پہلے ہی اس بات کی پیشن گوئی کی تھی کہ غیر مسلمین مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں گے جیسے کہ بھوکے لوگ کھانے پر ٹوٹتے ہیں صحابہ نے پوچھا کہ کیا ہم تب قلت میں ہوں گے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تم اس وقت تعداد میں ہو گے لیکن تمہاری حالت ایسی ہوگی جیسے کہ پانی کے اوپر بلبلے پھر انہوں نے اس کا آج کے حالات کے ساتھ تقابل کیا اور فرمایا کہ دنیا میں تقریباآٹھ ارب سے زیادہ آبادیاں ہے اور اس میں مسلمان دو ارب سے زائدہیں۔محترمہ ڈاکٹرصبیحہ بانونے بھی اپنے تبصرے پر اتحادامت کی اہمیت اجاگر کی،انہوں نے کہاکہ قرآن و سنت سے دوری کے باعث امت مسلمہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی ہے اوردشمن اسے آسانی سے شکار کرتا چلا جا رہاہے،انہوں نے نسل نوکی تربیت کیلئے نظام تعلیم میں اصلاحات کی بھی تجویزدی۔معلوم ہوتاہے کہ ہماراواسطہ تاریخ کے مشتعل ترین لوگوں سے پڑ گیاہے اور فلسطینیوں کی زمین پران کاہی حق تسلیم کیے بغیرکوئی چارہ کارنہیں۔میراخیال ہے کہ ہم بندگلی میں داخل ہوچکے ہیں اوراب اسرائیلیوں کے لیے ارض فلسطین پر قبضہ کاتسلسل،باہرسے آئے یہودیوں کی آبادکاری اورحصول امن ممکن نہیں رہا۔اوراسی طرح صہیونیت میں تحریک تجدید،تحفظ جمہوریت اور مملکت میں آبادی کا پھیلاﺅ بھی اب مزید نہیں چل پائیں گے۔
شایدابھی بھی ہم بندگلی سے نکل سکتے ہیں،ابھی بھی ارض فلسطین پرقبضہ ختم کیا جا سکتا ہے،ابھی بھی مواقع موجودہیں کہ صہیونیت کی تازہ تحریک میں اصلاحات ہوسکیں،ابھی بھی جمہوریت کی بحالی کے امکانات موجودہیں اور ابھی بھی تقسیم مملکت ہوسکتی ہے۔میرادل کرتاہے کہ میں بن یامین یتن ناہو،لیب مین اورنیونازیس کی آنکھیں کھولوں اورانہیں صہیونیت کی تباہی و بربادی کامشاہدہ کراوں۔اورانہیں باورکراﺅں کہ ڈونلڈ ٹرمپ، کوشنر،بائڈن،بارک اوبامااور ہلری کلنگٹن کبھی ارض فلسطین پر یہ قبضہ ختم نہیں ہونے دیں گے۔اور اقوام متحدہ اوریورپی یونین بھی غیرملکی یہودیوں کی آبادکاری کبھی بھی نہیں روکیں گے۔بس پوری دنیامیں اگرکوئی اسرائیلی سلطنت اور اسرائیلی عوام کے بچاسکتاہے تووہ خود اسرائیلی عوام ہیں جنہیں ایک نوزائیدہ سیاسی معاہدے کے تحت بہرحال تسلیم کرناہوگاکہ اس ارض فلسطین کے اصل مالک فلسطینی ہی ہیں اوریہ انہی کاوطن ہے ،
اب اسرائیلی جان چکے ہیں کہ فلسطین میں ان کاکوئی مستقبل نہیں ہے،ایسانہیں ہے کہ ارض فلسطین کے کوئی وارث نہ ہوں۔بائیں بازوکے کے ایک صہیونی دانشوراورمصنف"گڈون لیوے"نے بہت پہلے کہ دیاتھاکہ یہودیوں کونہ صرف یہ کہ فلسطینیوں کاحق تمہیں مانناپڑے گا بلکہ ارض فلسطین پر انہیں برتری دیناہوگی کیونکہ فلسطینی باقی دنیاسے مختلف فطرت کے لوگ ہیں۔ہم انہیں بدکاراور نشئی کہتے ہیں اورپھر ہم نے انکی زمینوں پرقبضہ کیاہے اورپھربھی ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے وطن کوفراموش کردیں،تب ہی وہ 1987ءسے حالت مظاہرہ میں ہیں اورہم انہیں قید خانوں میں بھرتے جارہے ہیں۔سالوں بعدجب ہم سمجھے کہ اب انہیں سبق سکھایاجاچکاہے لیکن 2000ءمیں اپنی کھائی گئی زمینیں واگزارکرانے کیلئے وہ مسلح ہوکرہمارے سامنے آگئے۔اسکے باوجودہم نے ان کامحاصرہ جاری رکھااوران کے گھروں کو ملیامیٹ کرتے رہے۔اب کی دفعہ جب انہوں نے ہمارے اوپرمیزائل داغناشروع کردیے توہم نے انکے اوراپنے درمیان بلندبالا دیواریں اور باڑھ لگانے کی منصوبہ بندی کرنی شروع کردی۔اس کے ردعمل میں انہوں سرنگیں کھودیں اور زیرزمین سے ہم پر حملہ آورہوئے یہاں تک کہ حالیہ جنگ کے آغازمیں انہوں نے ہماری ریاست اسرائیل کے اندر گھس کر ہمیں قتل کرنااورمارناشروع کردیا۔ہم نے اپنی فکراورسوچ سے ان کے لڑائی شروع کی لیکن انہوں نے ہمارے خلائی سیارہ ”آموس“ کوہی جام کردیا۔وہ مسلسل ہمیں دھمکیوں پردھمکیاں دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان اسرائیلی نشریاتی اداروں کوبھی بندکرکے جام کردینگے۔پس ہمیں تاریخ کے مشکل ترین افرادسے پالاپڑ گیاہے اور انہیں مانے بغیراورسرزمین فلسطین پراپناقبضہ ختم کیے بغیراس مسئلے کاکوئی حل موجودنہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن