اقبال کا مشن احساسِ زیاں کی بیداری 

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا 147 واں یوم پیدائش آج قوم انتہائی جوش و جذبے سے منارہی ہے۔ ملک بھر میں چراغاں، مزار پر خصوصی دستے کی سلامتی اور ان کے قومی نظریہ کے حوالہ سے منعقدہ خصوصی تقاریب میں تقاریر، مقالے، ان کی فلسفیانہ شاعری، فکر و نظر اور غزلیات کو مختلف رنگوں میں پیش کیا جائے گا۔ علامہ محمد اقبال کون ہیں؟ ان نکی ذات اور ان کے فلسفیانہ کلام کو مغربی دانشور، محققین اور شعرا کس طرح دیکھتے ہیں؟ اقبال کی شاعرانہ غزلیات کا مفہوم کیا ہے؟ مشرقی اور مغربی تہذیب میں بنیادی فرق اور ان دو تہذیبوں کا اقبال کس طرح تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جنھیں ہماری نئی نسل آج مکمل طور پر بھول چکی ہے۔
اقبال نے جب تک یورپ نہیں دیکھا تھا، ان کی فکرو نظر یورپ کے بارے میں قطعی مختلف تھی مگر یورپی طرز معاشرت دیکھتے ہی ان کی رائے اور ذہن تبدیلی کی کی جانب مائل ہو گئے۔ اس بارے میں برطانوی محققین، شعرا، دانشوروں اور اقبال کے کلام پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے تنگ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے ان کے فلسفہ¿ کلام اور اسلامی سوچ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی کتب میں ان کے سیاسی نصب العین پر متعدد مضامین لکھے ہیں۔ ’اسرار خودی‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مضمون نگار فاسٹر نے یہ اعتراض بھی اٹھایا کہ ’اقبال کسی ایک راستے کا انتخاب نہیں کرپائے‘۔ اس اعتراض کو محض اعتراض تصور کرتے ہوئے ماہرین اقبال کا کہنا تھا کہ ایک زمانے میں اقبال چونکہ ’ہندوستانیت‘ کے جذبات سے سرشار تھے۔
اس وقت ہندوستانی بچوں کے لیے قومی گیت اور ترانہ ہند انھوں نے لکھا اور یہ وہ دور تھا جب آزادی پاکستان کے لیے کوششیں عروج پر تھیں مگر آزاد اور خودمختار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ان کے قومی اور ملی خیالات اور سوچ و فکر میں انقلاب برپا ہو گیا جس پر انھوں نے خطاب بہ جوانان اسلام، شکوہ اور ترانہ ملی سمیت متعدد اسلامی نظمیں لکھیں۔ اقبال کی یہی وہ اسلامی فلسفیانہ شاعری ہے جس پر یورپی محققین نے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ اقبال کا یورپی معاشرے اور مغربی طرز زندگی سے شدید اختلاف بھی ہے۔ اقبال کا لینن اور برنارڈ شاہ کے بارے میں یہ خیال ہے کہ یہ دونوں بڑے فلاسفر مغربی معاشرے کی اعلیٰ اقدار کو تو متعارف کروانے میں کامیاب ہو گئے مگر یورپی اقدار اور سوسائٹی کے منفی پہلوﺅں کا حل تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اقبال نے نوجوان نسل کے بہترین مستقبل کے لیے انھیں ان کی بنیادی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے درس دیا:
تمنا آبرو کی ہو اگر گلزار ہستی میں
تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کرلے 
انھوں نے مسلمان نوجوانوں کو ستاروں پے کمند ڈالنے اور شاہین ایسا اونچی اڑان کرنے والے پرندہ کے اوصاف پیدا کرنے کا درس دیا۔ 
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اقبال انتہائی اعتدال پسند مگر سنجیدگی اور ظرافت کا پیکر تھے، خدا سے شکوہ، ابلیس کی مجلس اور فطرت انسانی ایسے طنزیہ خیال میں بھی ان کی قومی فکری سوچ نمایاں رہی۔ شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کو ہم سے جدا ہوئے آج طویل عرصہ ہونے کو ہے مگر افسوس! من حیث القوم ان کے فرمودات و اقوال کو آج بھی سمجھ نہیں پائے۔ شہر اقبال چونکہ میرا شہر بھی ہے اس لیے سیالکوٹ میں اقبال منزل کی حاضری دنیا ایمان کا حصہ بنا رکھا ہے۔ 1912ءمیں تعمیر کی گئی اس تاریخی رہائش گاہ کا انتظام و انصرام محکمہ آثار و قدیمہ پنجاب کے سپرد ہے جسے بیرون ممالک سے آئے وفود کے لیے کھلا رکھا جاتا ہے۔ چیف لائبریرین سید ریاض نقوی اور ان کے معاونین ویزیٹرز کے ہمہ وقت منتظر رہتے ہیں۔ کبھی کبھار غیرملکی سیاح بھی شاعر مشرق کے اس گھر کو دیکھنے آتے ہیں مگر افسوس! غیرملکی سیاحوں کے لیے گاڑی پارکنگ، پھیلی گندگی، ناجائز تجاوزات اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اس تاریخی رہائش گاہ کی وزٹ میں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ڈپٹی کمشنر مسٹر عدنان اعوان سے ان مسائل کے بارے میں میں خصوصی ملاقات بھی کر چکا ہوں۔ وہ ایک نیک نام ینگ ڈی سی ہیں اس لیے مجھے قوی امید ہے کہ شاعر مشرق کی رہائش گاہ سے متعلقہ مسائل انھوں نے حل کر دیے ہوں گے۔
بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ شاعر مشرق نے پنجابی کلام بھی لکھا۔ ’پیارا جیدی‘ اور ’میا بکری والا‘ ان کے شہرہ¿ آفاق کلام ہیں۔ اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں لکھی ان کی خصوصی نظم ان کے پیدائش کے کمرے کی زنیت ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب کا جاوید اقبال کے نام کتابوں کا وہ وصیت نامہ جو انھوں نے 13 اکتوبر 1935ءمیں لکھا دیوار پر واضح اور نمایاں نظر آتا ہے۔ لندن میں 1932ءمیں مسلم سٹوڈنٹس کی جانب سے دی گئی ڈنر پارٹی 1931ءمیں سر ظفراللہ خان کے ہمراہ بکنگھم پیلس کا دورہ اور 1928ءمیں غازی علم دین شہید کی نماز جنازہ میں خصوصی شرکت کی تصاویر بھی نمایاں ہیں۔ کاش! اقبال کے افکار و نظریات پر ہم عمل کر پائیں ورنہ:
تو جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

ای پیپر دی نیشن