نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر بڑھتے دہشت گرد حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا طالبان کی کابل حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور دوٹوک الفاظ میں باور کرایا ہے کہ پاکستان میں افغان حکومت دہشت گردی کرارہی ہے۔ گزشتہ روز ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند روانگی کے وقت میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے افغان حکومت سے اس امر کا تقاضا کیا کہ افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بنا کر بیٹھے ہوئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے جو کابل حکومت کی آشیرباد کے ساتھ پاکستان میں داخل ہوتے اور یہاں دہشت گردی کی وارداتیں کرتے ہیں۔ انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ہم نے 44 برس سے 40 لاکھ افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہا مگر افغان رہنما?ں کے دھمکی آمیز بیانات نے ہمیں یہ معاملہ میڈیا پر لانے پر مجبور کیا ہے۔ پاکستان کے عوام نے افغان مہاجرین کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کئے۔ دنیا بھر میں انکی وکالت کی مگر پاکستان کے صبر اور فراخدلی کی قدر نہیں کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں 60 فیصد اور خودکش حملوں میں پانچ سو فیصد اضافہ ہوا ہے جن میں اب تک دو ہزار 267 پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔ انہوں نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں اور انکے تربیتی مراکز کا قلع قمع کرے۔ دہشت گردوں نے ہمارے خلاف اعلانِ جنگ کر رکھا ہے جس کا ہم بھی جواب دیتے رہیں گے۔ انکے بقول بے نامی املاک اور غیرقانونی سرمائے کا دہشت گردی اور جرائم سے گہرا تعلق ہے۔ ہم افغانستان سے کوئی بدلہ نہیں لے رہے‘ نہ ہماری اسکے ساتھ کوئی دشمنی ہے۔ ہم کابل کو باہمی تعاون کی نئی تاریخ رقم کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم نے آٹھ لاکھ غیرقانونی افغان شہریوں کو سٹیزن کارڈ کے تحت رجسٹرڈ کیا۔ عالمی ادارے کی قلیل امداد و معاونت اس کا عشرعشیر بھی نہیں۔
دوسری جانب افغانستان کی طالبان حکومت نے وزیراعظم پاکستان کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اندر قیام امن امارات اسلامیہ نہیں‘ پاکستان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ پاکستان اپنے اندرونی مسائل خود حل کرے اور اپنی ناکامی کا ذمہ دار افغانستان کو قرار نہ دے۔ طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ روز اپنے جوابی بیان میں کہا کہ امارت اسلامیہ کسی کو اجازت نہیں دیتی کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال کرے۔ افغانستان میں اسلحے محفوظ ہیں اور کسی غیرذمہ دار فریق کے ہاتھ نہیں لگے۔ اسلحہ کی سمگلنگ ممنوع ہے اور ہر طرح کے غیرقانونی اقدامات کی روک تھام کی گئی ہے۔ پاکستان کو کسی شک و شبہ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
دریں اثناءامریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان دیدانت پٹیل نے پاکستانی سکیورٹی فورسز اور تنصیبات پر حملوں پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے افغانستان میں کوئی سامان نہیں چھوڑا‘ انہوں نے اپنے جاری کردہ بیان میں اس امر پر زور دیا کہ پاکستان سمیت افغانستان کے پڑوسی ملک افغانوں کو داخلے کی اجازت دیں۔ ہم رواں ماہ میں پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کی اطلاعات سے آگاہ ہیں۔ ہم کسی بھی ملک میں کسی ایک پارٹی یا حکومت کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے۔
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کی کوششوں اور سفارت کاری کے نتیجہ میں ہی دو سال قبل امریکی نیٹو فورسز اور سویلینز کی افغانستان سے واپسی ممکن ہوئی اور طالبان کی کابل کے اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار ہوئی۔ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد امریکہ نے پاکستان کے کردار پر شکوک و شبہات اور تحفظات کا اظہار بھی کیا اور پاک امریکہ تعلقات میں سردمہری کی فضا بھی پیدا ہوئی۔ اسکے باوجود پاکستان نے افغانستان میں امن و استحکام کیلئے علاقائی اور عالمی سطح پر اپنی کوششیں جاری رکھیں اور مسلم برادرہڈ کے جذبہ کے تحت طالبان حکومت کی جانب تعاون کا ہاتھ بڑھایا مگر یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ طالبان نے اقتدار میں آتے ہی پاکستان کے ساتھ نہ صرف طوطا چشمی کی روش اختیار کرلی بلکہ اسکی خودمختاری و سلامتی کو تضحیک کا نشانہ بھی بنانا شروع کردیا۔ اس سلسلہ میں طالبان کے ذمہ دار وزراءاور عہدیداروں کی جانب سے پاکستان کیخلاف تضحیک آمیز بیانات کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا اور پھر طالبان یقینی طور پر کابل حکومت کی آشیرباد کے ساتھ پاک افغان سرحد پر لگی باڑ بھی تضحیک آمیز لہجے میں اکھاڑنے اور اس دوران پاکستان کے قومی پرچم کو پاﺅں تلے روند کر اودھم مچانے لگے جو انکی جانب سے پاکستان کے ساتھ خدا واسطے کے بیر کا ہی پیغام تھا۔ اس وقت پاکستان میں پی ٹی آئی برسر اقتدار تھی جس کے قائد اور وزیراعظم عمران خان خود کو طالبان کا حامی و مددگار گرانتے تھے چنانچہ طالبان کے پاکستان مخالف اقدامات پر پاکستان کی اس وقت کی حکومت کی جانب سے کسی قسم کا ردعمل سامنے نہ آیا بلکہ طالبان حکومت کے دباﺅپر پاک افغان سرحد بھی دوبارہ کھول دی گئی۔ اسی طرح طالبان حکومت کے ساتھ معاہدہ کرکے افغانستان میں موجود کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگوں کی پاکستان آمد کا راستہ کھول دیا۔ اسی کے نتیجہ میں پاکستان میں دہشت گردی کی لہر نے دوبارہ سر اٹھایا جس میں بطور خاص پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور تنصیبات کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ حد تو یہ ہے کہ اس وقت کی حکومت کی نرم پالیسی سے فائدہ اٹھا کر مردان جیل میں مقید طالبان دہشت گرد جیل توڑ کر فرار ہو گئے اور حکومت کی جانب سے اس پر بھی کسی سخت ردعمل کا اظہار نہ کیا گیا۔ اسی دوران طالبان دہشت گردوں نے کابل میں پاکستان کے سفارتخانے پر حملہ کیا مگر پاکستان حکومت کی جانب سے اس پر بھی دوٹوک ردعمل سے گریز کیا گیا۔
جب پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ کے بعد اس پارٹی کی قیادت نے ملک میں پرتشدد احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا تو توڑ پھوڑ‘ تخریب کاری اور پولیس پر پٹرول بم پھینکنے کے واقعات میں افغان طالبان ہی ملوث پائے گئے۔ اسی طرح 9 مئی کے پرتشدد واقعات میں بھی افغان طالبان کے ملوث ہونے کی تصدیق ہوئی تو نگران حکومت نے گزشتہ ماہ اکتوبر کے آغاز میں قومی ایپکس کمیٹی کا اجلاس بلا کر پاکستان میں غیرقانونی مقیم غیرملکی باشندوں کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دی جس پر سیاسی اور عسکری قیادتوں نے یکسو ہو کر عملدرآمد کے عزم کا اظہار کیا تو اس پر نہ صرف کابل کی طالبان حکومت کے ذمہ داران کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار سامنے آیا بلکہ پاکستان میں یکایک خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا جن میں زیادہ سکیورٹی اہلکاروں اور تنصیبات کو ہی ٹارگٹ کیا جانے لگا۔ اس سلسلہ میں بلوچستان‘ خیبر پی کے اور پنجاب کے علاقوں مستونگ‘ ڈی آئی خاں‘ مردان‘ میانوالی اور تیراہ میں ہونیوالی دہشت گردی کی وارداتیں قابل ذکر ہیں۔ ان وارداتوں میں نہ صرف سکیورٹی فورسز کے قافلوں پر گھات لگا کر حملے کئے گئے بلکہ میانوالی میں پاک فضائیہ کے ایئربیس پر حملے کی بھی ناکام کوشش کی گئی۔ ضلع خیبر پی کے کے علاقہ تیراہ میں ہونیوالے دہشت گرد حملے میں کرنل حسن حیدر جوانمردی کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے جبکہ رواں ماہ کے دوران دہشت گردی اور خودکش حملوں میں 30 کے قریب سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے ہیں اور سکیورٹی اداروں نے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ ان تمام وارداتوں میں طالبان دہشت گردوں کے ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے۔
یہ صورتحال پاکستان کے امن و سلامتی کے حوالے سے انتہائی سنگین ہے چنانچہ نگران وزیراعظم اسی تناظر میں بڑھتی دہشت گردی کے اسباب و محرکات منظر عام پر لانے پر مجبور ہوئے جبکہ اس امر کی پہلے ہی تصدیق ہو چکی ہے کہ دہشت گردی کی ان وارداتوں میں امریکی ساختہ اسلحہ استعمال ہوا ہے۔ اس بنیاد پر طالبان حکومت اور امریکی ترجمان کی وضاحتیں محض لیپاپوتی اور بودی نظر آتی ہیں۔ ہمیں بہرصورت ملک کی سلامتی اور اسکی آزادی و خودمختاری کا تحفظ ہی سب سے زیادہ عزیز ہے جس پر کسی قسم کی لچک یا مفاہمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ طالبان کی کابل حکومت اگر پاکستان کے ساتھ مخاصمت والا اپنا طرز عمل برقرار رکھتی ہے تو اسکے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو دشمنوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔