مولانا مجیب الرحمن انقلابی
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کا شمار ان ممتاز ہستیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا اور ان کی تصنیفات کی تعداد پندرہ سو سے زائد ہے،ان ہی کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ میرے پاس ایک ایسا عالم دین ہے کہ اگر اس کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور پورے ہندوستان کے بقیہ علماءکا علم دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو ان کا پلڑا بھاری ہو گا اور وہ ہیں مولانا اشرف علی تھانوی ۔آج ملک بھر کی امن کمیٹیاں اور علماءکرام حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھا نوی کے اس سنہرے اصول اورخوبصورت امن فارمولے اپنے مسلک کو چھوڑو نہیں اور دوسرے کے مسلک کو چھیڑو نہیں پر عمل پیر ا ہیں۔
حکیم الامت حضرت تھانوی نے تو قیام پاکستان سے بھی پہلے اس ضرورت کی طرف علماءکو متوجہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:”ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ مسلم لیگ والے کامیاب ہو جائیں گے اور بھائی جو سلطنت ملے گی وہ انہی لوگوں کو ملے گی لہٰذا ہم کو یہ کوشش کرنا چاہیے کہ یہی لوگ دیندار ہو جائیں۔“ قیامِ پاکستان میں مولانا اشرف علی تھانوی کی دعائیں کوششیں اور ان کے خلفاءو رفقاء کا بنیادی کردار ہے اسی وجہ سے مولانا اشرف علی تھانوی کے حکم پر بانی جامعہ اشرفیہ لاہور حضرت مفتی محمد حسن نے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی،مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع اور دیگر علمائے دیوبند کے ساتھ تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا اور کئی جگہ مسلم لیگ کے امیدواروں کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا جس کے نتیجہ میں پاکستان بننے کے بعد مشرقی و مغربی پاکستان پر آزادی کا پرچم لہرانے کی سعادت ”بزم اشرف“ کے روشن چراغ اور دارالعلوم دیوبند کے قابل فخر سپوت حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو حاصل ہوئی۔
اپریل میں دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہوا جس میں شرکت کے لئے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے پاس دعوت نامہ ارسال کیا گیا دعوت نامہ کے جواب میں مسلم لیگ کی مذہبی تربیت کافریضہ سر انجام دیتے ہوئے لکھا کہ میری دو کتابیں ارکانِ مسلم لیگ عملی زندگی میں اختیار کر لیں، حیاةالمسلمین اور صیانة المسلمین۔۔۔ گویا کہ حضرت تھانوی کی نظر میں ہندوستان میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کا دستور حیاةالمسلمین اور نظام صیانة المسلمین ہونا چاہئے تھا۔
حکیم الامت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانوی نے مسلمانوں کی حالت کودیکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی حالت کا تصور اگر کھانے سے پہلے آجاتا ہے تو بھوک اڑجاتی ہے اور سونے سے پہلے آجاتا ہے تو نیند ا±ڑ جاتی ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کی فلاح وکامیابی کیلئے حضرت تھانوی نے حیاةالمسلمین کو تحریر فرمایا اور اس کے نظام کوجاری کرنے کے لیے حضرت تھانوی نے مجلس صیانةالمسلمین کے نظام کو جاری کیا اور قیام پاکستان کے بعد حضرت مولانا جلیل احمد شیروانی(المعروف پیارے میاں)نے حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب بانی جامعہ اشرفیہ لاہور کی زیر سرپرستی اس نظام کو پاکستان میں جاری فرمایا۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو اوقات کی پابندی کا خیال بہت زیادہ رہتا، ان میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا انتہائی مجبوری کی صورت کے سوا کسی قسم کا کسی کے ساتھ استثناءنہ ہوتا،حضرت ِ تھانوی قرآن و حدیث، فقہ وتفسیر اور معرفت و سلوک میں غیرمعمولی امتیاز و تفوق کے علاوہ نفسیات شناس بھی تھے،انسانوں کی نفسیات میں انھیں گہرا ادراک حاصل تھا کہ کس انسان سے کب اور کیا برتاو¿ کیاجاے، اس سے وہ بہ خوبی واقف تھے اوریہ وہ خوبی ہے جو اصلاح و تربیت اور دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے نہایت ناگزیر ہے۔حضرت ِ تھانوی قرآن و حدیث، فقہ وتفسیر اور معرفت و سلوک میں غیرمعمولی امتیاز و تفوق کے علاوہ نفسیات شناس بھی تھے۔ انسانوں کی نفسیات میں انھیں گہرا درک حاصل تھا۔جہاں ایک طرف علامہ سید سلیمان ندوی سے لے حضرت مفتی محمد حسن سمیت سینکڑوں علماءو صلحاءآپ کے دامن عقیدت سے وابستہ اور دست حق پر بیعت تھے وہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افرادکے علاوہ برصغیر پاک وہند کے دو نامور شعراءجگر مراد آبادی اور حفیظ جون پوری نے بھی آپ کے ہاتھ پربیعت کرتے ہوئے توبہ کی۔
آپ حکیم الامت تھے افرادِ امت کے حالات و کوائف کو باریک بینی سے دیکھتے اور ان کے امراض کاعلاج کرتے تھے۔ ان کی اِسی حکمت و دانائی اور فہم وتدبر کے باعث سیکڑوں گم گشتگانِ راہ کومنزل نصیب ہوئی۔یہ مولانا تھانوی کی زندگی کاایک ایسا وصف ہے، جو ہمارے آج کے داعیوں، مربّیوں اور مبلغوں کی زندگیوں میں مفقود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اشرف علی تھانوی کسی شخص یا فرد کانام نہیں، بلکہ ایک علمی، روحانی اور تربیتی ادارے کا نام ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک دانش گاہ تھے، جس نے اصلاح و تربیت کے لاتعداد پیاسوں کی پیاس بجھائی۔اصلاح امت کیلئے آپ کی تحریک اور تصنیفات ہمیشہ مشعل راہ رہیں گی۔