مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بقدر استطاعت دل جان سے بجاآوری کو تقویٰ کہتے ہیں ، اور اللہ کے بتائے ہوئے ان احکامات کو جن سے اللہ نے روکا ہے ان گناہوں سے رکے رہنا بھی تقویٰ کہلاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کو تقویٰ پسند ہے اور ذات پات یا قومیت وغیرہ کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے قابل عزت و احترام وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ تقویٰ دینداری اور راہ ہدایت پر چلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ بزرگانِ دین کا اولین وصف تقویٰ رہا ہے۔ قرآن پاک متقی لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے۔افعال و اقوال کے عواقب پر غوروخوض کرنا تقویٰ کو فروغ دیتا ہے اورعبادات تقویٰ حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہیں دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی رضا کی خاطر خدا ترسی کی طاقت انسان کے اندر محکم کر دیتے ہیں جس کے باعث انسان اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی عزت اور عظمت اس کے دل میں ایسی جاگزیں ہو جاتی ہے کہ کوئی جذبہ اس پر غالب نہیں آتا اور یہ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان اللہ کے حکم کی وجہ سے حرام ناجائزاور گندی عادتیں چھوڑ دے گا اور ان کے ارتکاب کی کبھی جرا¿ت نہ کرے گا۔ تقویٰ اصل میں وہ صفت عالیہ ہے جو تعمیر سیرت و کردار میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ عبادات ہوں یا اعمال و معاملات۔ اسلام کی ہر تعلیم کا مقصود و فلسفہ، روحِ تقویٰ کے مرہون ہے۔ خوفِ الٰہی کی بنیاد پر حضرت انسان کا اپنے دامن کا صغائر و کبائر گناہوں کی آلودگی سے پاک صاف رکھنے کا نام تقویٰ ہے۔اور اللہ اور اس کے رسول اکرم کی نافرمانی کاہر کام گناہ کہلاتا ہے ایک قول یہ ہے کہ اپنے دل کو غفلتوں سے، نفس کو شہوتوں سے، حلق کو لذتوں سے اور اعضاءکو گناہوں سے بچا لینا تقویٰ ہے۔ جب یہ چیزیں حاصل ہو جائیں گی تو اس وقت قربِ خداوندی کی منزل تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے گی۔تقویٰ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی ہوجاتا ہے کہ قرآنِ مجید میں دو سو چھتیس سے زاید آیات ایسی ہیں جن میں مختلف انداز میں تقویٰ ہی کا بیان ہے۔ اس کی اہمیت کا انداز اس بات سے بھی بخوبی ہو جاتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی انبیاءکرام تشریف لائے سبھی نے اپنی اُمتوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا۔یہ تقویٰ کا پہلا درجہ ہے ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ کم از کم کلمہ اسلام پڑھ کر دین اسلام کے قلعہ میں پناہ لے اور اپنے آپ کو جہنم میں جانے سے بچالے۔ خیال رہے کہ کلمہ اسلام تقویٰ کا ادنیٰ درجہ ہونے کے ساتھ باقی درجات کے لیے شرف کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔تقویٰ کا یہ پہلا درجہ یعنی کلمہ اسلام نماز کی تکبیر تحریمہ کی مثل ہے جیسے تکبیر تحریمہ ایک لحاظ سے نماز کے لیے شرط کی حیثیت رکھتی ہے ایسے ہی پہلا درجہ کلمہ اسلام دیگر درجاتِ تقویٰ یا ارکان تقویٰ کے لیے شرط کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کے بغیر آدمی تقویٰ کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ جب کہ دوسری سمت سے دیکھو تو کلمہ اسلام تقویٰ کا پہلا اور ادنیٰ درجہ ہے کہ آدمی صرف کلمہ پڑھ کر اسی پر اکتفا کر جائے۔ تقویٰ کا متوسط اور درمیانہ درجہ یہ ہے کہ فرائض اور واجبات کو ادا کرنا حرام کاموں اور کبیرہ گناہوں سے بچنا ہر مسلمان کے لیے کم از کم اس قدر تقویٰ ضروری ہے۔ فرائض و واجبات کے علاوہ نوافل بھی بہ کثرت ادا کرنا مستحبات پر بھی عمل کرنا حرام کے ساتھ ساتھ مکروہات اور مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز اختیار کرنا۔ کبیرہ گناہوں سے بچنا اور صغیرہ پر اصرار نہ کرنا یہ خواص کا تقویٰ ہے۔اعلیٰ ترین درجہ: یہ مقربین کا تقویٰ ہے فرائض و واجبات کی ادائی کے علاوہ سنن و نوافل کو بھی پابندی اور دوا م کے ساتھ ادا کرنا اور ہر اس چیز سے بچنا جو یادِ خدا سے غافل کر دے اور سنتِ نبوی پر چلتے ہوئے شریعت کی کامل اتباع کرنا۔ قرآن مجید میں ایک مقام پر اللہ رب العزت نے مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اے ایمان والو! تم اللہ سے تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اختیار کرنے کا حق ہے۔“ (آل عمران)۔اللہ سے ڈرنے اور اس سے تقویٰ کرنے کا حق تو یہ ہے کہ مومن تادمِ مرگ سجدہ سے سر ہی نہ اُٹھائے، تقویٰ کا حق ادا کرنا بندوں کے بس کی بات ہی نہ تھی۔ چنانچہ اپنے حکم میں نرمی فرماتے ہوئے ارشاد ہوا ”جتنا تم سے ہو سکے اتنا تو اللہ سے تقویٰ اختیار کرو“ (القرآن) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سیدھی سچی بات کہا کرو (سورة الاحزاب 70) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو (سورة التوبة119) ۔ تقویٰ کوئی ایسا عمل نہیں ہے جو صرف اِس امت کے لئے خاص ہو بلکہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک اور قیامت تک آنے والے ہر شخص سے مطلوب ہے کہ وہ اللہ سے ڈر کر زندگی کے ایام گزارے، فرمان الٰہی ہے: ہم نے تم سے پہلے اہل کتاب کوبھی اور تمہیں بھی یہی تاکید کی ہے کہ اللہ سے ڈرو( سورة النساء131)حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا: تقویٰ یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو کسی سے بہتر اور افضل مت سمجھو۔ادنیٰ درجہ: دائمی اور ابدی عذاب سے بچنا یعنی کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہونا۔ یہ درجہ ہر کلمہ گو مسلمان کو حاصل ہے۔حضرت یزید بن سلمہ ؓ نے رسول اللہ سے سوال کیا؟ یارسول اللہ! میں نے آپ سے بہت سی حدیثیں سنی ہیں اور مجھے خوف اور ڈر ہے کہ اس کا آخر اس کے اول کو مجھے بھلادے سب حدیثیں مجھے یاد نہ رہیں اور میں بھول جا¶ں) لہٰذا مجھے کوئی ایسی بات اور کلمہ بیان فرمادیں جو جامع ہو؟ آپنے فرمایا۔ اللہ سے ڈرو! اس چیز میں جس کو تم جانتے ہو اور جس کا تم کو علم ہے۔ (ترمذی حدیث نمبر: 2683، حدیث مرسل)حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو حجة الوداع میں فرماتے ہوئے سنا، آپ فرمارہے تھے: اپنے رب اللہ سے ڈرو، پانچوں نمازیں پڑھو، رمضان مہینے کا روزہ رکھو،اپنے اموال کی زکوٰة ادا کرو،اور اپنے حاکم اور بادشاہ کی اطاعت کرو، اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجا¶گے۔ (ترمذی حدیث نمبر616)۔حضرت علیؓ کا ارشاد گرامی ہے: معصیت پر اصرار نہ کرنا اور اپنی عبادت پر ناز و اعتماد نہ کرنا تقویٰ ہے۔“اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین