بدلتا ہوا امریکہ۔


اللہ دتہ نجمی۔

موجودہ امریکی صدارتی انتخابات میں 78 سالہ ڈونالڈ ٹرمپ کی حیرت انگیز جیت بڑے بڑے عالمی دانشوروں کی عقل و دانش پر سوالیہ نشان لگا گئی. اِس کامیابی پر پختہ کار تجزیہ نگاروں کے تجزیے اور تبصرے بھی کملا ہیرس کی ہار کے منوں بوجھ تلے دب کر رہ گئے. ہر امریکی صدارتی الیکشن میں کانٹے دار مقابلہ ہونے کی توقع کی جا رہی ہوتی ہے. عمومی مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ انتخابی سروے یا چناو¿ کے عمل کی جانچ پڑتال کرنے والی جدید methodology اکثر و بیشتر کسی کام نہیں آتی. انتخابی نتائج توقعات، اندازوں اور پیشین گوئیوں کے مطابق یا برعکس آ سکتے ہیں. کئی دوسرے جمہوری ممالک میں بھی یہی صورت حال پیدا ہوتی رہتی ہے. 2024ئ میں منعقد ہونے والے بھارتی چناو  میں بھی کانگریس کے جیتنے کی پیشگوئیاں کی گئی تھیں مگر نریندر مودی نے اپنا راج سنگھاسن ڈولنے سے بچا لیا تھا. امریکی انتخابی نتائج کے حوالے سے آجکل یہ سوال مختلف فورمز پر مسلسل اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا موجودہ صدارتی الیکشن میں امریکی ووٹروں نے ایک واضح اور دوٹوک پیغام نہیں دیا ہے کہ وہ کسی خاتون کو صدارت کے منصب پر فائز نہیں دیکھنا چاہتے اور کم از کم 'صدارت کی حد تک' مردوں کی حاکمیت کو بہرصورت برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ سوال دہرانے کی نوبت اِس لئے پیش آئی کیونکہ غیر سفید فام، کملا ہیرس کی ہار سے پہلے وہ بعینہ یہی سلوک 2016ئ کے صدارتی انتخابات میں سفید فام، ہیلری کلنٹن سے بھی کر چکے ہیں جو ا±س وقت صدارت کے لئے مضبوط ترین امیدوار تھیں. مزے کی بات یہ ہے کہ اِن دونوں خواتین کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے اور دونوں کو ہرانے والے ڈونالڈ ٹرمپ ہی ہیں. 

ٹرمپ 2016ئ میں صدر منتخب ہوئے مگر اگلی باری میں ڈیموکریٹک امیدوار جوبائیڈن سے ہار گئے. ہارنے کے باوجود انہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی ہمت نہیں ہاری اور 2024ئ میں جیت اپنے نام کر لی. امریکی تاریخ میں ٹرمپ کی طرح جیتنے کی ایک اور مثال بھی ملتی ہے. گروور کلیولینڈ 1884ئ میں الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے امریکی صدر بنے مگر 1888ئ میں وہ اپنے مخالف امیدوار، بنجمن ہیریسن سے شکست کھا گئے۔ پھر 1892ئ میں انہوں نے ہیریسن سے اپنی ہار کا بدلہ لے کر حساب برابر کر دیا. گروور کلیولینڈ اور ٹرمپ کے بر عکس کچھ کم نصیب ایسے بھی گزرے تھے جو چانس ملنے کے باوجود اپنے سیاسی مخالفین سے دوبارہ پٹ گئے. ا±ن میں مارٹن وین برن، ملرڈ فلمور، روزویلٹ اور ہربرٹ ہوور شامل ہیں. 

کبھی امریکیوں کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ذاتی حیثیت میں اپنی روسیاہی اور غیر اجلے کردار کے حامل ہونے کے باوجود اپنے صدر کے کردار کے معیار کو بلند ترین سطح پر دیکھنا چاہتے تھے. چنانچہ واٹر گیٹ سکینڈل کی زد میں آنے والے امریکی صدر، رچرڈ نکسن کو صدارت کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا. پھر وقت بدلا، کلنٹن-مونیکا سکینڈل سامنے آنے پر صدر بل کلنٹن کو سیاسی طور پر زبردست مخالفت اور مواخذے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پریشانیاں اور پشیمانیاں ان کے سامنے زہریلی ناگن کی طرح پھن پھیلائے جھوم رہی ہوتی تھیں. انہوں نے بار بار اپنی قوم سے اپنی کردہ غلطی کی معافی مانگی. امریکیوں نے اپنے رہبروں کے بارے میں وضع کردہ اخلاقی اصولوں سے پیچھے ہٹتے اور معیاری اقدار سے روگردانی کرتے ہوئے انہیں معاف کر دیا. یوں نکسن کے برعکس ان کی صدارت محفوظ رہی. 

روایت رہی ہے کہ امریکی صدر، صدارتی الیکشن میں ہار جائے تو وہ جیتنے والے امیدوار کو مبارکباد دیتا ہے اور نو منتخب صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت بھی کرتا ہے. ٹرمپ نے اِس روایت کو توڑتے ہوئے بطور سابق صدر نہ تو جوبائیڈن کو مبارکباد دی اور نہ ہی ا±ن کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی. الٹا انہوں نے نومبر 2020ئ سے لے کر جنوری 2021ئ تک ووٹ چوری ہونے اور الیکشن میں دھاندلی ہونے کی مہم چلائی۔ ان دعووں پر ان کو 60 سے زیادہ عدالتی مقدمات میں ہزیمت بھی اٹھانا پڑی۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اِس پر بس نہیں کیا، انہوں نے اپنے حامیوں کو واشنگٹن میں کیپیٹل ہل کے مقام پر اکٹھا ہونے کی کال دی. اِس کا مقصد کانگریس کی طرف سے صدر جوبائیڈن کی الیکٹورل کالج میں فتح کی باقاعدہ توثیق کے عمل کو روکنا یا اثر انداز ہونا تھا. ٹرمپ کے حامیوں کا ہجوم ہنگامے میں بدل گیا. غالب امکان بھی یہی ہے کہ ٹرمپ خود بھی ایسا ہی چاہتے تھے. ہنگامہ آرائی کے دوران ان کے نائب صدر اور اسمبلی کے اراکین کو جانوں کے لالے پڑ گئے اور ٹرمپ کو دوسرے مواخذے کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ مشکلوں سے سینیٹ میں مواخذے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ 

بطور صدر، ٹرمپ پر الزام عائد ہوا کہ انہوں نے اپنے سیاسی حریف، جوبائیڈن کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کو جواز بنا کر تحقیقات کا اعلان کروانے کے لئے یوکرین پر دباو¿ ڈالا تھا. ان پر دوسرا الزام یہ تھا کہ انہوں نے کانگریس کی تحقیقات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی تھیں کیونکہ ٹرمپ نے مبینہ طور پر مواخذے کی تحقیقات کے حوالے سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا. انہوں نے دستاویزی ثبوت فراہم نہیں کئے اور اپنے اہم ساتھیوں کو بھی ایسا کرنے کی ہدایت کی تھی. 

 ٹرمپ اپنی ذاتی زندگی میں ہمیشہ مختلف سکینڈلز کی زد میں رہے. تاہم انہوں نے اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات سے ہمیشہ انکار کیا اور ہر وہ طریقہ اختیار کیا جو ا±ن کے پیش رو صدور کبھی نہ اپنا سکے. اِن تمام باتوں کے باوجود رپبلکن پارٹی نے تمام تر سابقہ امریکی روایات سے پہلو تہی کرتے ہوئے ان کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کرکے انتخابی اکھاڑے میں اتارا. قسمت نے یاوری کی اور وہ امریکی صدر منتخب ہونے میں کامیاب بھی ہو گئے. ٹرمپ نے الیکشن کمپین کے دوران داخلی اور خارجی امور پر جو موقف اختیار کیا، وہ موجودہ امریکن پالیسی سے قطعاً ہم آہنگ نہیں تھا. انہوں نے 'سب سے پہلے امریکہ' کا نعرہ بھی بلند کیا. جیت کے لئے انہوں نے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے ہر حربہ کامیابی سے استعمال کیا. مہنگائی و بیروزگاری سے پریشان اور حالات کی یکسانیت سے ا±کتائے ہوئے امریکیوں نے تبدیلی کے ان نعروں اور وعدوں پر کان دھرے اور نتیجتاً ہما کو ان کے کندھے پر بٹھا کر دم لیا. وہ اپنے منشور پر کس حد تک عملدرآمد کر پائیں گے اور امریکہ اور دنیا کو کس حد تک اپنی مرضی کے مطابق بدل سکیں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا. فی الحال تو وہ دنیا بھر کے حکمرانوں سے جیت کی مبارک بادیں وصول کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں.

ای پیپر دی نیشن