گلزار ملک
رواں سال میں 10 جون کو میرا ایک کالم تھا جس کا عنوان تھا کہ ماڈل پولیس تھانے نہیں نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ ان ماڈل تھانوں کو بنے ہوئے آج تقریبا پانچ ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے ان ماڈل تھانوں کا شہریوں کو ایک رتی برابر بھی فائدہ نہیں ہوا ہم نے اپنے کالم میں اس سے قبل پہلے ہی کہا تھا کہ ضرورت تھانوں کو ماڈل بنانے کی نہیں ہے بلکہ پولیس کا نظام بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سارے مسائل شہریوں کے لیے ایک عذاب بنے ہوئے ہیں مگر افسوس کہ اس نظام کو بدلنے کی طرف کسی نے بھی کوئی دھیان نہیں دیا شاید پولیس کے افسران اور حکمران یہ خود نہیں چاہتے کہ پولیس کے اس کلچر کو تبدیل کیا جائے۔ ان ماڈل تھانوں پر اتنا پیسہ لگانے کا کیا فائدہ ہوا نظام تو پہلے سے بھی زیادہ بگاڑ کا شکار ہو چکا ہے۔ تھانہ کلچر تو آج بھی وہی ہے۔ رشوت بھی وہی پہلے کی طرح چل رہی ہے تھانوں کے اندر مک مکا بھی ہو رہے ہیں پولیس والے اپنی مرضی کے بندے کو چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی مرضی کے بندے کو پکڑ لیتے ہیں لوگ تو اس گندے نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ بہرحال ان ماڈل تھانوں سے شہریوں کو کوئی سروکار نہیں
اندرون شہر لاہور میں پولیس ناکے شہریوں کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں ان ناکوں پر ایک اے ایس آئی اور چند کانسٹیبل حضرات جہاں جی میں آتا ہے ناکہ لگا کر کھڑے ہو جاتے ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں اور تو اور اب تو ڈولفن پولیس کے اہلکاروں نے بھی شہر کے مختلف مقامات پر ناکے لگانا اور دیہاڑیاں بنانا شروع کر رکھی ہیں۔ ان غیر قانونی ناکوں پر صرف مک مکا ہوتا ہے جو شہری ان پولیس والوں سے مک مکا نہیں کرتا تو اسے ذلیل و خوار کیا جاتا ہے اور تھانے لے جانے اور مقدمہ درج کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں بالاآخر اس شخص کو پولیس والوں سے مکا کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس طرح یہ پولیس اہلکاران چند روپوں کے عوض سب کچھ بائی پاس کر دیتے ہیں۔ ایسے پولیس اہلکاروں کی وجہ سے شہر کے اندر چوری ڈکیتی کی وارداتوں سمیت ناجائز فروشی ناجائز اسلحہ اور منشیات فروشی وغیرہ کا دھندہ عام ہے افسوس کہ پولیس کو یہ سب کچھ کیوں نظر نہیں آتا
ان ”پولیس ناکوں“ پر جس انداز میں خاص کرکے اندرون شہر لاہور کے ناکوں پہ شہریوں سے خراج وصول کیا جا تا ہے یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان ناکوں پر صبح اور چھٹی کے وقت سکولوں اور کالجوں کو آنے جانے والے موٹر سائیکل سوار طلبہ طالبات، خواتین اور مقامی کاروباری حضرات کو روک کر بلا وجہ پریشان کرتے ہیں اس دوران پولیس والے شہریوں کے ساتھ انتہا کی بد تمیزی سے پیش آتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ غیر قانونی ناکے سب سے زیادہ تھانہ مصری شاہ تھانہ شاد باغ تھانہ بادامی باغ اور تھانہ نو لکھا کے ایریا میں تقریبا 200 یا 300 گز کے فاصلے پر ایک ناکہ دکھائی دیتا ہے ایسے ناکے وہ پولیس اہلکار سجاتے ہیں۔ جنہیں گشت کرنے کے لیے شہر کے مختلف مقامات پر لگایا جاتا ہے جن میں بہت سارے اہلکار ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس اپنی ذاتی موٹر سائیکلیں بغیر نمبر پلیٹ کے ہوتی ہیں۔ ان پولیس ناکوں کے متعلق باتیں تو اور بھی بہت ساری ہیں فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور صاحب اور وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ سے درخواست ہے کہ شمالی لاہور کے مختلف علاقہ جات میں لگنے والے ایسے پولیس ناکوں کو فوری ختم کیا جائے اور پولیس کا اپنا بگڑا ہوا قبلہ پہلے درست کیا جائے ان میں بہت سارے پولیس اہلکار ایسے بھی ہیں جو مختلف دکانوں سے کھانے پینے کی اشیا لیتے ہیں اور بغیر پیسے دیے چلے جاتے ہیں اگر کوئی دکاندار پیسے مانگتا ہے تو اسے اپنی وردی کی دھونس میں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اور ساتھ ہی ان پولیس کانسٹیبلز حضرات کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے پورے ماحول کو گڑبڑ کر رکھا ہے لگتا ہے ان کانسٹیبل حضرات کو لگام دینے کے بعد ہی شہریوں کو سکھ کا سانس نصیب ہوگا۔