اخلاقی گراوٹ اور ہم

ڈاکٹر ناصر خان
اخلاقی گراوٹ کا مطلب ہے کہ کسی معاشرے یا فرد کے اخلاقی معیار میں زوال آنا، یعنی اقدار، اصولوں، اور کردار کی سطح پر کمی واقع ہونا۔ جب ایک معاشرہ یا فرد اپنے اصولوں اور اخلاقیات کو نظر انداز کر کے غلط راہ پر چلنا شروع کر دیتا ہے تو یہ اخلاقی گراوٹ کہلاتا ہے۔ اس میں جھوٹ، دھوکہ دہی، بددیانتی، ظلم، اور دوسرے برے اعمال شامل ہوتے ہیں جو معاشرتی اقدار کو متاثر کرتے ہیں۔ اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے معاشرت میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور لوگ ذاتی مفادات کو ترجیح دینے لگتے ہیں، جس سے اجتماعی طور پر معاشرتی اعتماد اور ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں کامیابی کا پیمانہ مالی حیثیت اور دولت بن گیا ہے۔ ہمیں بار بار یہ سکھایا جاتا ہے کہ زندگی میں آگے بڑھنے کا مطلب صرف مالی کامیابی حاصل کرنا ہے، اور اس مقصد کے لیے اکثر لوگ اصول، اخلاقیات اور انسانی قدروں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس سوچ نے ہماری معاشرت میں مادّیت پرستی کو فروغ دیا ہے، جہاں عزت، مقام، اور تعلقات کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی کے پاس کتنی دولت ہے۔ایسی سوچ ہمیں صرف مادی مفادات کے پیچھے بھاگنے کی ترغیب دیتی ہے اور ہمارے معاشرتی اقدار کو برباد کر رہی ہے۔ اخلاقیات اور انسانی ہمدردی جیسے بنیادی اصول اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ لوگوں کو اس بات کا یقین دلا دیا گیا ہے کہ عزت اور مقام خریدا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ مالی کامیابی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں، چاہے اس میں جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، یا غیر قانونی ذرائع کا استعمال کیوں نہ شامل ہو۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری معاشرے میں بدعنوانی، بے ایمانی، اور اخلاقی گراوٹ عام ہو چکی ہے۔ جب مالی کامیابی کو ہی عزت اور قدر کا معیار بنا دیا جائے تو لوگ محض پیسے کے لیے جینے لگتے ہیں، اور حقیقی کامیابی یعنی دیانت داری، علم، اور اخلاق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہمیں اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے کہ عزت اور کامیابی کا تعلق صرف مالی حیثیت سے نہیں بلکہ انسانیت، اخلاقیات، اور دیانت سے ہے، تاکہ ہم ایک مثبت اور باوقار معاشرت تشکیل دے سکیں۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میںاکثر والدین بھی اپنے بچوں پر حد سے زیادہ مالی کامیابی حاصل کرنے کا دباو¿ ڈالتے ہیں۔ اکثر والدین اپنی اولاد سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بڑے عہدوں پر فائز ہوں اور زیادہ سے زیادہ دولت کمائیں تاکہ ان کا معاشرتی مقام بلند ہو۔ اس دباو¿ میں بچوں کی شخصیت، دلچسپیاں، اور اخلاقی قدریں پسِ پشت چلی جاتی ہیں، اور ان کی زندگی کا مقصد صرف پیسہ کمانا بن جاتا ہے۔اخلاقی گراوٹ کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ والدین، جو بچوں کو سچائی اور دیانت کی تعلیم دینے والے ہیں، خود انہیں ایسی روش پر ڈال رہے ہیں جو معاشرے کے لیے تباہ کن ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ فکریہ ہے جس میں والدین اور معاشرے کو اپنی سوچ اور ترجیحات پر غور کرنا چاہیے تاکہ آئندہ نسلیں سچائی، دیانت اور اخلاقیات کی قدر کر سکیں۔
لیکنیہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معاشرت میں جب لوگ مالدار افراد کے طرزِ زندگی اور سماجی مقام کو دیکھتے ہیں تو ان کے اندر بھی ویسا ہی مقام اور زندگی گزارنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ دولت کی چمک دمک اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کو دیکھ کر لوگوں میں ایک مسابقت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، اور وہ بھی ویسا ہی مقام حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ خواہش اکثر اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ لوگ اخلاقیات، اصولوں، اور دیانت داری کو چھوڑ کر صرف مالی کامیابی کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں۔
یہ واقعی ہمارے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کا ایک تلخ اور افسوسناک پہلو ہے۔ جب ہمیں دودھ کی دکان پر خالص دودھ کی ضمانت، میڈیکل اسٹور پر خالص دوائی کی تصدیق، یا سرکاری دفاتر میںرشوت کے خلاف تحریر دیکھنےکوملتیہے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ برائیاں معاشرے میں اس حد تک سرایت کر چکی ہیں کہ لوگوں کو ان باتوں کی یقین دہانی کروانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہ تحریریں ہماری اخلاقی پستی کی نشاندہی کرتی ہیں، جہاں بنیادی دیانت اور اصولوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور خود معاشرہ ان برائیوں کو تسلیم کر چکا ہے۔
جب معاشرے میں جھوٹ، ملاوٹ، اور بدعنوانی اس قدر عام ہو جائیں کہ ہر جگہ سچائی اور دیانت کی یقین دہانی کی ضرورت پیش آئے، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ معاشرےکے افراد اصولوں اور اقدار پر نہیں بلکہ لالچ اور مفاد پرستی پر چل رہے ہیں۔ لوگوں نے نیکی اور اخلاقی قدروں کو محض زبانی جمع خرچ تک محدود کر دیا ہے، جبکہ عملی طور پر ان کی پیروی میں ناکام ہیں۔ یہ اخلاقی گراوٹ کی وہ حالت ہے جہاں ایک طرف لوگوں کو دیانت کی تعلیم دی جاتی ہے، اور دوسری طرف وہ خود اس کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ یہ دوغلا پن معاشرے میں بداعتمادی اور مایوسی کو فروغ دیتا ہے اور ہمیں اپنی اخلاقی بنیادوں پر دوبارہ غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
پاکستان میں ملاوٹ کا مسئلہ بہت سنگین ہے، اور یہ عوام کی صحت، معیشت اور معاشرتی اقدار کو متاثر کر رہا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء، ادویات، اور حتیٰ کہ روزمرہ استعمال کی چیزوں میں بھی ملاوٹ عام ہو چکی ہے۔ دودھ میں پانی ملانا، مصالحوں میں رنگ اور غیر معیاری اجزاءشامل کرنا، اور دوائیوں میں غیر معیاری کیمیکلز کا استعمال ان چند مثالوں میں شامل ہیں جو ملاوٹ کی سنگین صورتحال کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کی وجوہات میں بدعنوانی، قانون کے غیر مو¿ثر نفاذ، اور لوگوں میں اخلاقی اقدار کا زوال شامل ہیں۔ ملاوٹ کی وجہ سے عوام صحت کے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، جبکہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس مسئلے کو روکنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اگر اس مسئلے کو بروقت حل نہ کیا گیا تو اس کے نتائج مستقبل میں مزید خطرناک ہو سکتے ہیں۔
لوگ عام طور پر ملاوٹ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ کم محنت اور کم لاگت میں زیادہ منافع کمانا چاہتے ہیں۔ مالی فائدے کی لالچ، اخلاقی اقدار کی کمی، اور قانون کے کمزور نفاذ کی وجہ سے لوگ ملاوٹ جیسی غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ کاروباری حضرات اپنی مصنوعات کی مقدار بڑھانے یا پیداوار کی لاگت کم کرنے کے لیے غیر معیاری یا سستے اجزاءکا استعمال کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو۔ اس کے علاوہ، ملاوٹ کرنے والے جانتے ہیں کہ حکومتی نگرانی اور سزا کے نظام میں بہتری کی کمی ہے، جس کی وجہ سے انہیں پکڑے جانے یا سزا پانے کا خطرہ کم محسوس ہوتا ہے۔ 
پاکستان میں جھوٹ کا بکنا اور پھیلنا عام ہو گیا ہے۔ ان میں سب سے بڑی وجہ معاشرےمیں سچ کی قدر اور انصاف کا فقدان ہے۔ لوگ جھوٹ کا سہارا اس لیے لیتے ہیں کہ وہ اپنے مفادات کو محفوظ بنا سکیں، خواہ وہ مالی ہو، سماجی حیثیت کا ہو یا طاقت کا۔ جھوٹ بول کر عموماً لوگ وہ مقاصد حاصل کر لیتے ہیں جو سچ بول کر شاید ممکن نہیں ہو پاتے۔ بدعنوانی اور ناانصافی کا نظام بھی اس رجحان کو فروغ دیتا ہے، جہاں سچ بولنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور جھوٹ بولنے والوں کو کامیابیاں ملتی ہیں۔سیاست، کاروبار، اور معاشرتی تعلقات میں جھوٹ کا استعمال ایک عام رویہ بن گیا ہے کیونکہ لوگ فوری فائدے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اخلاقی تربیت کی کمی اور لوگوں میں حق و صداقت کے بارے میں شعور کی کمی بھی جھوٹ کے عام ہونے کی وجوہات میں شامل ہیں۔ جب تک معاشرے میں اخلاقی اقدار اور انصاف کا نظام مضبوط نہیں ہوگا، جھوٹ کا پھیلاو¿ اور فروغ جاری رہے گا۔
مایوسی انسان کو ایک ایسی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے جہاں وہ مثبت سوچ اور عمل کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ جب افراد کو بار بار ناکامیوں، ناانصافیوں، اور محرومیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان میں مایوسی جنم لیتی ہے، اور وہ اپنی راہیں بدلنے یا اپنی اقدار سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ مایوسی انسان کو اس حد تک لے جاتی ہے کہ وہ اخلاقیات کو ترک کر کے بدعنوانی اور غلط راہوں کو اپنانے لگتا ہے۔
مایوسی میں مبتلا شخص سمجھتا ہے کہ معاشرت میں کامیاب ہونے کے لیے اصولوں اور اخلاقیات کی پیروی سے زیادہ، موقع پرستی اور خود غرضی کا راستہ اپنانا ضروری ہے۔ جب لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محنت اور دیانت داری سے کامیابی نہیں مل سکتی تو وہ جھوٹ، دھوکہ دہی، رشوت، اور دیگر غیر اخلاقی ذرائع کو اپنا لیتے ہیں۔ یوں مایوسی اخلاقی بدعنوانی کا سبب بن جاتی ہے، اور معاشرت میں امانت، دیانت اور سچائی جیسے اقدار کو نقصان پہنچتا ہے۔
 

ای پیپر دی نیشن