سیّد روح الامین
پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے 77سال ہو چکے ہیں۔ جن عظیم مقاصد کی تکمیل کے لیے بانیانِ پاکستان کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانیں قربان کیں، بچے یتیم ہوئے، عورتیں بیوہ ہوئیں، بزرگ مرد و خواتین اپنی جائیدادیں چھوڑ کر در بدر ہوئے، کیا وہ مقاصد اب کسی کو یاد بھی ہیں؟ چائنہ ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا، اُس کی ترقی پوری دنیا کے لیے مثالی ہے۔ اُس کے مقابلے میں ہم 77سال بعد بھی ہر دوسرے دِن اُس سے قرضہ مانگنے جاتے ہیں۔ اَب تو ماشاءاللہ پُوری دنیا کے ہم مقروض ہیں۔ ہم تو مسلمان قوم ہیں، ہمیں تو قائد اعظم کے بقول خوددار بن کر پوری دنیا کے لیے مشعلِ راہ بننا تھا۔ 77سال میں عام عوام کو جھوٹے وعدوں اور دلاسوں کے سِوا کیا مِلا؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شروع میں ایک بات کی اور ہمیں بس وہ اچھی لگی تھی۔ معذرت کے ساتھ اُن کے نام کے ساتھ صاحب نہیں لکھا۔ اُنھوںنے کسی بھی سرکاری ملازم کے ساتھ صاحب لکھنے سے منع فرمایا ہے۔ اُنھوں نے کہا تھا کہ ہمیں جُھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ بخدا 77سالوں میں ہمارے نام نہاد ”جمہوریت“ کے دعویدار سیاسی حضرات نے ”عوام“ کے ساتھ جھوٹ ہی تو بولا ہے۔ ہر الیکشن سے پہلے ان سب کے بیانات دیکھ لیں جو کہ ریکارڈ کا حصّہ ہیں۔ آپ ہمیں ووٹ دیں، حکومت میں آکر آسمان سے ستارے لا کر آپ کے قدموں میں رکھیں گے۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔ کوئی بھی جب اقتدار میں آجاتا تو اپنی اُنہی زبانوں سے ڈھٹائی کے ساتھ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی جادُو کی چھڑی نہیں ہے جو مسائل حل کر سکیں تو جناب عوام کے مسائل کے لیے جادُو کی چھڑی کام نہیں کرتی لیکن آپ کی دولت اور جائیدادوں میں اضافے کے لیے تو جادُو کی چھڑی پُھرتی سے کام کرتی ہے۔ پہلے دو پارٹی سسٹم تھا۔ باری باری آتے تھے، کارکردگی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے صفر ہے۔ اَب تیسری پارٹی آئی یا لائی گئی یہ الگ موضوع ہے پہلے بھی لایا ہی جاتا رہا ہے۔ اب تیسری پارٹی اِن سب کے لیے ایک ”عذاب“ بنا ہوا ہے۔ 77سالوں میں اُنھوں نے عوام کے لیے جو کیا وہ سب کے سامنے ہے۔77سال بعد آج بھی عوام کو آٹے کے حصول کے لیے لمبی قطاروںمیں گھنٹوں کھڑا ہوناپڑتا ہے جو کہ بنیادی ضرورت ہے۔ چینی کی مِلیں ان کی ذاتی ہیں۔ قیمتیں آسمان کو چُھونے لگتی ہیں، قیمتیں کم کرنے کے بجائے عوام کو مشورہ دیتے ہیں کہ چینی کھانا چھوڑ دیں۔ 77سال بعد بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سردیوں گرمیوں میںہوتی ہے۔ بِل ادائیگی کی وجہ سے عوام آج 77سال بعد بھی مرنے پر مجبورہیں۔ بخدا کوئی ایک بھی عوام کی بات نہیں کرتا۔ 77سالوں میں بار بارآئی ایم ایف سے قرضے لیتے رہے، ملک ایسے چلتے ہیں؟ عوام کو نہ وقت پر انصاف ملتا ہے، ظلم وزیادتی کا کہیں بھی مداوا نہیں ہوتا۔ چند بڑے شہروں میں ماڈل پولیس اسٹیشن بنائے ہیں، عمارتیں شاندار ہیں۔ بخدا عام عوام کے ساتھ دیہاتوں میں، شہروں میں پولیس کا جو روّیہ آج بھی ہے بس خُدا کی پناہ؟ ایک طرف عوام کی حالتِ زار دیکھیں دوسری طرف اِن حکومتی صاحبان کی دولت جائیدادوں کے انبار سب کے سامنے ہے۔ اِن کو ایک بات کی داد دینی پڑے گی، آج تک اُنھوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ہم نے یا میں نے کرپشن نہیں کی بلکہ یہ فرماتے ہیں کہ کوئی ہماری کرپشن ثابت کرے، اب ثابت کیسے ہو گی، کون کرے گا؟ بخدا 77سالوں میں مافیاز ریاست سے بہت طاقتور ہے۔ یہی وجہ ہے احتساب نام کی یہاں کوئی چیز ہی نہیں۔ بیانات بہت خوبصورت، غربت، بیروزگاری، مہنگائی کا خاتمہ بلکہ ہرمسئلے کے بارے فرمائیں گے کہ اس کو حل کرنا اولین ترجیح ہے۔ آج تک ہمیں کوئی کام ہوتا نظر نہیں آیا۔ درمیان میں آمریت بھی آئی۔ بخداعوام آج بھی جنرل ضیاءالحق اور پرویز مشرف کے ادوار کو یاد کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں ان سب سے زیادہ ترقیاتی کام ہوئے۔ ”خاندانی جمہوریت“ صرف چند گھرانوں کو بہت ہی اچھی لگتی ہے۔ 77سالوں میں نہ صنعتیں، کارخانے لگائے گئے نہ اچھے اسپتال بنے نہ یونیورسٹیاں، سکول عوام کے لیے بنائے گئے۔ سرکاری تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کو خود ناکام کر کے ذاتی یونیورسٹیاں مہنگے ترین سکول کالجز کھول لیے گئے جہاں لاکھوں میں ڈگریاں بانٹی جا رہی ہیں۔ آج بھی پارلیمنٹ میں عوام کے لیے کبھی قانون سازی ہوئی ہے؟ عوام کے حقوق کے تحفظ کی کبھی کسی ایک نے بھی بات کی ہے۔ ”اقتدار کی ہوس“ میں پارلیمنٹ میں ایک دوسرے کوگالیاں دیتے ہیں، للکارتے ہیں۔ بزرگ سیاستدان عورتوں کے لیے نازیبا الفاظ سرعام استعمال کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کوماضی یاد دلاتے ہیں۔ آگے نہیں بڑھتے۔ اقتدار میں آکر بخدا متکبر بن جاتے ہیں۔ ان دو پارٹیوں کی ”کارکردگی“ تو سب پر عیاں ہے۔ اب تیسری پارٹی میں بھی وہی ”فرعونیت“ ہے۔ اقتدار کی ہوس؟ بخدا ایک ہی ادارہ منظم، ملکی سلامتی کا ضامن تھا اور ہے بھی پاک افواج۔ اِن ناعاقبت اندیش سیاست دانوں نے اُسے بھی متنازع بنا دیا ہے۔ اُن کی شہادتوں کو کوئی نہیں دیکھتا۔ آج سوشل میڈیا پر جو بے حیائی فروغ پا رہی ہے اُس کا ذمہ دار کون ہے؟ اُس کو لگام کون دے گا؟ 77سالوں میں ہر ایک اپنے مفادات کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ کئی صحافی حضرات بھی ان کے ذاتی ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ کروڑ پتی ہیں۔ عوام رُل رہی ہے۔ عوام کو گھٹیا مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ کوئی ایک ایسا سیاستدان بھی ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد اپنے حلقے میں مہینے میں ایک چکر لگاتا ہو۔ اُن کی مشکلات سُنتا ہوں اور حل کراتا ہو۔ یہ ”جمہوریت“ ہے؟ فکر دُنیا میں ہم اپنی آخرت بھی بُھول چکے ہیں۔ مرنا توبرحق ہے، حساب بھی ہو گا۔ تعلیم کا سوچی سمجھی سازش کے تحت ستیاناس کردیا گیا ہے۔ 77سالوں میں قائد اعظم کے ارشادات اور 73ءکے ”مقدس“ آئین کی روشنی میں آج تک اپنی قومی و سرکاری زبان اُردو کو نافذ نہیں کیا گیا۔77سال بعد بھی ہم زبان کے لحاظ سے قومی سطح پر ”گونگے“ ہیں۔ ہماری اپنی کوئی زبان ہی نہیں۔ ترقی ہم نے خاک کرنی ہے۔ غیر ملکی زبان میں ہمارے بچے رَٹے لگاتے ہیں۔ پوری دنیا میں تعلیم اُن کی اپنی زبانوں میں دی جاتی ہے۔ کسی ایک شعبے میں اگر ترقی ہم نے پوری دنیا سے زیادہ کی ہے تو وہ کرپشن ہے۔ اسی وجہ سے عام شہری آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو اُس کا احساسِ محرومی بڑھتا ہی جائے گا ۔
عدلیہ کو سب سے زیادہ ذمہ داری لینی ہوتی ہے۔ یہاں ججز پر سیاست سے وابستگی کے سرعام الزام لگتے ہیں۔ ہرکوئی مرضی کے فیصلے لینے کی ایڑی چوٹی کا زورلگاتا ہے۔ راتوں رات نئے قوانین وضع کر لیے جاتے ہیں۔ ججز کو سرعام للکارا جاتا ہے، ایسا کیوں ہے؟ ہر ایک اپنے مفادات کی دوڑ میں غلط کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ قائد اعظم کا پاکستان ہے؟ بخدا ہم جن مسائل میں پھنس چکے ہیں، جب تک ہم ایمانداری سے اس ملک کے لیے ایک نہ ہوئے، اپنی اپنی اناﺅں کے بُتوں کو نہ توڑا، ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھیں گے۔ قرض اُتارنے کے لیے مزید مقروض ہوتے جائیں گے۔ آخرمیں حکمران طبقہ اپنے بیرون ملک ”محلات“ میں بھاگ جائے گا اور عوام؟؟؟ آئیں ملک کی ترقی کے لیے یک جان ہو جائیں۔ حصول پاکستان کے بعد قائد اعظم نے 1947ءمیں لاہور کے جلسے میں فرمایا تھا: ”ہم میں سے ہر شخص نہ صرف پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا عہد کرے بلکہ اس عزم کا بھی اظہار کرے کہ ہمیں پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانا ہے او رایسی قوموں کی صف میں کھڑا کرنا ہے جن کا مقصد پاکستان کے اندر ہی نہیں بلکہ ہر جگہ امن قائم کرنا ہو۔“
کچّے کے پکّے ڈاکوﺅں سے ہر حال میں جان چھڑانا ہوگی۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن اور 9مئی کے شرپسندوں کو سرعام سزائیں دینا ہوں گی۔ ایک ایسا قانون بنانا ہو گا جو کوئی بھی ملک کی سلامتی اور پاک افواج کے خلاف بکواس بازی کرے اُسے دس سال کی کم از کم سزا ہو ۔ احتساب بلاتفریق ہو، پھر یہ ملک ترقی کرے گا ورنہ کئی اور 77سال گزرتے جائیں گے ، کچھ بھی نہیں بدلے گا۔