اندر کی بات شہباز اکمل جندران قیدی نمبر 804

Nov 10, 2024

شہباز اکمل جندران

مشہور زمانہ قید خانہ ”اڈیالہ“ راولپنڈی کے اڈیالہ روڈ پر واقع ہے۔ اس جیل کی اپنی ایک قدیم تاریخ ہے۔ قیدی نمبر804اسی جیل کی ایک بیرک میں بند ہے۔ ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ سے وہ یہاں اپنی قسمت کے فیصلے کا منتظر ہے۔ قیدی نمبر 804کی وجہ سے اڈیالہ جیل اب پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اڈیالہ ہی وہ جیل ہے جہاں ذوالفقار علی بھٹو، میاں محمد نواز شریف، مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی بھی لمبی مدت کے لیے قید رہے۔ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو ڈیتھ سیل سے پھانسی گھاٹ تک پہنچے۔ جہاں جلاد تارا مسیح نے انہیں سپرنٹنڈنٹ جیل، جوڈیشل مجسٹریٹ اور دیگر حکام کی موجودگی میں تختہ دار پر لٹکایا۔ عدالتی حکم کی بجا آوری کی۔ جبکہ پھانسی کے بعد بھٹو کی ڈیڈ باڈی اسی جیل سے فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے گڑھی خدا بخش سندھ پہنچائی گئی جہاں انہیں خاموشی سے اُن کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
اڈیالہ سے جڑی اور بھی کئی دردناک کہانیاں ہیں۔ تاہم بتاتے چلیں کہ اس جیل کا قیام 1986ءکی دہائی میں عمل میں آیا۔ جیل میں 1919قیدی رکھنے کی گنجائش ہے۔ تاہم ضرورت پڑنے پر گنجائش سے زیادہ قیدی بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ پنجاب کی 48جیلوں میں اڈیالہ حساس نوعیت کی واحد جیل ہے جس میں زیادہ تر سیاسی قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ اس جیل کی بڑی دہشت ہے۔ یہ خوف کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
جبکہ ان دنوں یہ جیل سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی کی وجہ سے دنیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔اس جیل میں بانی ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ سے قید جیل کی سخت صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ جیل کی اصطلاح میں وہ قیدی نمبر 804ہیں۔ جن کا ذکر غیر ملکی میڈیا پر بھی اب بڑے زور و شور اور تسلسل کے ساتھ ہو رہا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی قید سے جیل کی حساسیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔جس کے باعث یہاں مانیٹرنگ کے نظام کو مزید بہتر اور م¿وثر بنانے کے لیے مزید کئی مقامات پر مزید سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیں۔ جیل اور جیل سے باہر ہرموومنٹ کا لمحہ بہ لمحہ جائزہ لیا اور اُسے مانیٹر کیا جاتا ہے۔مانیٹرنگ پر مامور عملہ 24گھنٹے مستعد اور مانیٹرنگ کے عمل میں شریک رہتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی جس سیل میں قید ہیں اُس کے اردگردبھی سی سی ٹی وی کیمروں کا جال بچھا دیا گیا ہے تاکہ کوئی غیر معمولی واقعہ رونما نہ ہو۔
جب سے جیل میں بانی پی ٹی آئی کے لیے قائم کمیونیکشن کا خفیہ نیٹ ورک پکڑا گیا ہے جیل میں قیدیوں سے ملاقاتوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ بانی کے علاوہ دیگر قیدیوں کو بھی استثنیٰ نہیں۔ سب اس پابندی کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔ مختلف شخصیات سے بانی کے رابطوں کے لیے یہ خفیہ نیٹ ورک کو ئی اور نہیں جیل کا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم خود ماتحت اہلکاروں کے ساتھ مل کر چلا رہا تھا۔ جسے پتہ چلنے پر حراست میں لے لیا گیا۔ اب وہ خود ایک قیدی کی حیثیت سے جیل میں ہے۔ اس واقعہ کے بعد جیل میں اتنی سختی کر دی گئی ہے کہ چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ 
خفیہ کمیونیکشن نیٹ ورک پکڑے جانے کے بعد بانی پی ٹی آئی کو بہت سی مشکلات اور سختیوں کا سامنا ہے۔ بانی فوج سے مذاکرات چاہتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اُن کو اگر کہیں سے کوئی ریلیف مل سکتا ہے تو وہ صرف فوج کا ادارہ ہی ہے۔ بانی 9مئی کا دفاع بھی اپنے انداز سے کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں پُرامن احتجاج کی کال دی تھی۔ وہ جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج کا دفاع بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ کہتے بھی سنائی دیتے ہیں کہ اُن کا اختلاف شخصیات سے ہے۔”ادارے“ سے نہیں۔
 بانی پی ٹی آئی 9مئی کے حوالے سے اپنے مقدمات کی کسی فوجی عدالت میں منتقلی نہیں چاہتے۔ اس امر سے انتہائی خوفزدہ ہیں کہ 9مئی کے کیسزفوجی عدالت میں چلائے گئے تو سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ اب اُن کے ہمدرد جنرل (ر) فیض بھی گرفتار ہیں اور فیلڈ کورٹ مارشل کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ جنرل فیض کے خلاف اس نوعیت کی کارروائی نے انہیں مزید الجھا دیا ہے۔ پریشانی دامن گیر ہے کہ جنرل (ر) فیض کی گرفتاری اس لیے عمل میں لائی گئی ہے تاکہ انہیں پھنسایا جا سکے۔ بانی پی ٹی آئی اور اُن کی لیگل ٹیم پوری طرح کوشاںہیں کہ بانی پی ٹی آئی پر قائم 9مئی کے مقدمات کسی بھی طرح فوجی عدالت میں منتقل نہ ہوں۔ سپریم کورٹ کے لیے یہ بڑا امتحان ہے کہ وہ 9مئی کے حوالے سے سویلینز کے کیس فوجی عدالتوں میں منتقل کرتی ہے یا اس عمل کو روک دیتی ہے۔
حالات ایسے بن گئے ہیں کہ قیدی نمبر 804کی صدا سننے والا کوئی نہیں ۔ بانی فوج سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں لیکن فوج ہے کہ اس کے لیے تیار نہیں۔ سیاسی جماعتوں سے بھی پی ٹی آئی قیادت نے بات چیت کے سب دروازے بند کر رکھے ہیں۔ سیاست میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت سے ہی راستے نکالے جاتے ہیں اور آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو اُس نے ہمیشہ آپس کی بات چیت کو ترجیح دی ہے۔ اڈیالہ کا قیدی نمبر 804اپنے تئیں اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ فوج سے بات چیت کئے بغیر سیاست میں پارٹی کی دوبارہ واپسی کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی۔
گمان غالب ہے جیل میں پی ٹی آئی کی جتنی بھی قیادت قیدی نمبر 804سے ملی، ذہن میں صرف یہی بات ڈالی ہے ”کپتان تم اکیلے نہیں ہو، پورا ملک تمہارے ساتھ ہے“ لیکن پھر ہم نے دیکھا احتجاج کی کال دی گئی۔ کہا گیا ڈی چوک پہنچ کر ہی دم لیں گے۔ علی امین گنڈا پور ایک بڑا جلوس لے کر اگرچہ خیبرپختونخوا سے ضرور نکلے لیکن پنجاب اور سندھ بالکل خاموش رہا۔ احتجاج والے دن دونوں صوبوں کی قیادت غائب ہو گئی۔ احتجاج میں شامل نہ ہوئی، کیوں شامل نہ ہوئی؟ اس کا جواب آج تک کسی کو نہیں مل سکا۔
پی ٹی آئی ویسے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ رہنما اپنی پارٹی اور اپنے لیڈروں کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں۔ 26 ویںآئینی ترمیم کے موقع پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے گیارہ پی ٹی آئی ممبران اپنی قیادت کے ساتھ رابطے میں نہیں رہے۔ بکے یا اپنے ضمیر بیچے۔ کچھ تو ہوا ہو گا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ صدارتی امیدوار کامیاب نہیں ہو سکے۔ جبکہ حکومتی حمایت یافتہ صدارتی امیدوار نے جن کا تعلق عاصمہ جہانگیر گروپ سے تھا، جیت اپنے نام کی۔
یہ سب اعشارئیے بتا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی بہت مشکل میں ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاست میں ہٹ دھرمی اور مزاج میں سخت گیری کی وجہ سے آج یہ سب لوگ اس حال کو پہنچے ہوئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ دیگر سیاسی جماعتیں بھی پی ٹی آئی قیادت کے بیانیے اور سخت گیری کی وجہ سے اُن کے ساتھ بیٹھنے اور کسی بھی قسم کی گفت و شنید کے لیے تیار نظر نہیں آتیں۔ جس کا حتمی نتیجہ سیاست میں انارکی ہے جو کسی طرح بھی ملک اور کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے بہتر اور سودمند نہیں۔
وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور حالات بدل رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی اب پہلے والی سپورٹ حاصل نہیںجو کبھی انہیں حاصل تھی۔ سیاست لچک اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا نام ہے۔ اقتدار نہیں رہتا تو لوگ بھی ساتھ چھوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ موجودہ حکومت اگر کوئی اچھا کام کر گئی، معیشت کو بہتر بنا دیا تو لازمی امر ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے سیاست کرنا اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ یہ خبریں بھی عام ہیں کہ شاہ محمود قریشی بھی جلد جیل سے رہاہونے والے ہیں۔ جو رہا ہونے کے بعد فارورڈ بلاک کی بنیاد رکھیں گے۔ پی ٹی آئی مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تو بانی کے لیے سیاست میں دشوار راستے ہوں گے۔

مزیدخبریں