یوم اقبال اور بانگ درا کا سو سالہ جشن

محمد شکیل بھنڈر

bhinder1973@gmail.com
 اسد اللہ غالب ہندوستان کے شاعروں میں اعلی پائے کے شاعر تھے آپ اٹھارویں صدی کے اردو شاعری کرنے والوں بلند پایہ مقام رکھتے تھے تقریباً ایک صدی بعد ہندوستان کو اقبال کی شکل میں وہ شاعر نصیب ہوئے جنہوں نے فارسی اور اردو زبان دونوں میں شاعری کی، " کیسے خبر تھی کہ غالب مرحوم کے بعد ہندوستان میں پھر کوئی ایسا شخص پیدا ہو گا جو ا?ردو شاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے گا اور جس کی بدولت غالب کا بے نظیر تخیل اور نرالا انداز بیان پھر وجود میں آئیں گے اور ادب ا?ردو کے فروغ کا باعث ہوں گئے مگر زبان اردو کی خوش اقبالی دیکھئے کہ اس زمانے میں اقبال سا شاعر اسے نصیب ہوا جس کے کلام کا سکہ ہندوستان بھر کی اردو داں دنیا کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے اور جس کی شہرت روم و ایران بلکہ فرنگستان تک پہنچ گئی ہے۔ " (1) ص 9, دیباچہ ، بانگ درا علامہ اقبال اپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی غزل کہنا شروع ہو گئے تھے اب اپنے کلام میں اصلاح کے لیے کسی ایسے استاد کی تلاش میں تھے جو آپ کے کلام کی اصلاح بھی کریں اور سمت کا تعین بھی کریں تو اسی سلسلے میں اس وقت کے مشہور شاعر اور ادیب داغ دہلوی کا نام ہندوستان کے اعلی پائے کے شاعروں میں کیا جاتا تھا ، آپ اپنا کلام بذریعہ ڈاک داغ دہلوی کو ارسال کرتے اور داغ دہلوی اس کلام کا بغور جائزہ لیتے اور واپس اقبال کو ارسال کر دیتے۔ جیسے جیسے اقبال اپنا کلام داغ دہلوی کو اصلاح کے لیے ارسال کرتے جاتے تو داغ آپ کے کلام کی اصلاح کرتے اور واپس کر دیتے۔ جلد ہی داغ نے اقبال کے کلام میں اصلاح کی گنجائش نہ ہونے کے بارے میں خوش خبری سنائی۔ اس سلسلے میں شیخ عبد القادر بانگ درا کے دیباچے میں یوں بیان کرتے ہیں " گو اس ابتدائی غزل گوئی میں وہ باتیں تو موجود نہ تھیں جن سے بعد ازاں کلام اقبال نے شہرت پائی مگر جناب داغ پہچان گئے کہ پنجاب ایک دور افتادہ ضلع کا یہ طالب علم کوئی معمولی غزل گو نہیں۔ انہوں نے جلد ہی کہہ دیا کہ کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔ " (2) ص 11, بانگ درا . اس کے بعد یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہا لیکن داغ دہلوی کی زندگی میں ہی ان کو اپنے اس شاگرد کی شہرت کے چرچے سننے کو ملے۔ علامہ اقبال نے اپنی پہلی اردو تصنیف بانگ درا کو تین حصوں میں تقسیم کیا …حصہ اول جب سے آپ نے غزل گوئی شروع کی اور جب تک آپ اعلی تعلیم کے لیے ہندوستان سے انگلستان جانے سے پہلے تک کا دور ہے یعنی 1905ءتک کا دور، اس میں 49 نظمیں شامل ہیں ان میں سب سے پہلی نظم " ہمالہ " کے نام سے یے، آپ نے کی یہ نظم بہت زیادہ مشہور ہوئی
اے ہمالہ داستان اس وقت کی کوئی سنا
مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا 
 علامہ کی پہلی اردو تصنیف بانگ درا کے پہلے حصے میں مرزا غالب ، ایک مکڑا اور مکھی ، ایک پہاڑ اور گلہری اور بچے کی دعا، جیسی بچوں کے لیے نظمیں موجود ہیں ان میں آپ نے بچوں کی تربیت پر زور دیا اور آپ نے بچوں کو اپنے اللہ پاک سے دعا کرنے کا طریقہ سکھایا اور یہ نظم آج ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی ہمارے بچوں کی تربیت کرتی ہوئی نظر آتی ہے 
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری 
 نظم کے آغاز میں آپ ایک بچے کی زبان میں اپنے رب سے دعا کرتے ہوئے یہ تمنا کرتے ہیں کہ اے میرے رب میری زندگی کو دوسرے کے لیے ایک شمع کی صورت بننا ، اگرچہ شمع خود جلتی ہے لیکن دوسروں کے روشنی کا سبب بنتی ہے۔ اس کے اگلے چل کر بچہ اپنے رب سے دعا کرتے ہوئے اپنے وطن کے لیے اپنے آپ کو اس انداز میں پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے 
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت 
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت 
اس حصے میں دوسری نظموں کے علاوہ " تصویر درد" طویل نظم ہے اس کے ساتھ علامہ نے اپنے فلسفہ کے استاد آرنلڈ کی یاد میں" نالہ فراق " کے نام سے نظم لکھی ، اس وقت کی بات ہے جب لاہور میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فلسفہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اس کے بعد پروفیسر آرنلڈ ہندوستان سے واپس انگلستان روانہ ہو گئے تھے اس نظم کا پہلا شاعر بھی اسی سے متعلق ہے۔
جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں 
آہ ! مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سر زمیں 
 اقبال شروع میں ہندوستان کے رہنے والے ہندووں اور مسلمانوں ایک ساتھ رہتے ہوئے دیکھتے ہوئے انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے حق میں تھے اسی سلسلے میں آپ بانگ درا کی پہلے حصے میں "ترانہ ہندی " کے عنوان سے نظم لکھتے ہیں 
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا 
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا 
 اقبال اسی نظم میں آگے جا کر لکھتے ہیں کہ ہمارا مذہب ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ دور رکھنے کے بارے میں نہیں بتاتا بلک ہم سب ہندوستانی ہیں اور ہم سب کا وطن ہندوستان ہے اور ہم سب نے ایسی میں رہنا ہے۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا 
ہندی ہیں ہم ، وطن ہے ہندوستاں ہمارا 
 بانگ درا کا دوسرا حصہ یا دور (1905ءسے 1908ء) ہے، یہ وہ دور ہے جب آپ اعلی تعلیم کے حصول کی خاطر ہندوستان سے انگلستان روانہ ہوتے ہیں ، جب آپ ہندوستان پہنچے تو وہاں پہلے سے شیخ عبد القادر موجود ہوتے ہیں یہ وہی شیخ عبد القادر ہیں جنہوں نے بانگ درا کا دیباچہ لکھا ہے ، آپ انگلستان میں مقیم تھے اور آپ نے علامہ اقبال کا استقبال کیا اور ان کو اپنی رہائش گاہ لے جاتے ہیں جہاں اقبال ایک دن آرام کے بعد اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کرتے ہیں ، آپ حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ ولایتی معاشرے کا بغور مشاہدہ بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اس دوران آپ کی زیادہ توجہ اپنی اعلیٰ تعلیم کی طرف رہی۔ آپ نے اس دوران 24 غزالیں لکھیں ، ان میں محبت ، حقیقت حسن ، طلبہ علی گڑھ کالج کے نام ، انسان ، ایک شام ، اور عبد القادر کے نام ، زیادہ اہم ہیں۔ آپ نے طلبہ علی گڑھ کالج کے نام، نوا? غم، انسان ، پیام عشق ، فراق، عبد القادر کے نام ، اہم غزلیں شامل ہیں ، علامہ اقبال اس دور میں اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ مغربی زندگی اور معاشرے کا بغور جائزہ لیتے رہیں ، آپ نے مغربی معاشرے میں جو گراوٹ دیکھی اور محسوس کی اس کا اظہار آپ نے واپس آ کر اپنی شاعری کے ذریعے کیا، آپ نے اپنی نظم " طلبہ علی گڑھ کے نام" یوں فرمایا 
اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے 
عشق کے دردمند کا طرزِ کلام اور ہے
جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا
اس کا مقام اور ہے اس کا مقام اور ہے 
 حصہ سوم میں۔ یہ دور 1908ءسے شروع ہوتا ہے اور 1924ءتک جاری رہتا ہے ، اس میں آپ نے 72 نظمیں اور غزلیں لکھیں، جب آپ ولایت سے واپس آتے ہیں ایک طرف ولایت میں مغربی معاشرے میں جو گراوٹ دیکھی اور اس گراوٹ کے محرکات کا بغور مشاہدہ کیا تو دوسری طرف مشرق میں ہندوستان کے رہنے والے غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے یہاں مسلمانوں کی حالت بہت بری تھی ایک طرف انگریز ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو اور ہندو لیڈروں کا روایہ مسلمانوں کے ساتھ بالکل بھی اچھا نہ تھا انہی حالات کے پیش نظر اقبال کے اپنی نظم ترانہ ہندی کے جواب میں ترانہ ملی لکھا اور اس میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم تلے جمع کرنے اور ایک ہونے کا درس دیا
چین و عرب ہمارا ، ہندوستان ہمارا 
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا 
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا 
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا 
 بانگ درا کے تیسرے حصے میں " دو ستارے ، نمود صبح ، فلسفہ غم، وطنیت ، شکوہ ، جواب شکوہ ، نصحیت ، انسان ، شمع اور شاعر ، نوید صبح ، ارتقا، صدیق، تہذیب حاضر ، شیکسپیئر ، خضر راہ اور طلوع اسلام جیسی مشہور نظمیں شامل ہیں اس کے علاوہ غزلیں بھی اس حصے میں شامل ہیں ، اس میں چند طویل نظموں کا مختصراً جائزہ پیش کیا جا رہا ہے ? شکوہ علامہ اقبال کی طویل نظموں میں سے ایک ہے ، اقبال نے اس کو انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھا، اس بارے میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اپنی کتاب "اقبال کی طویل نظمیں" میں لکھتے ہیں " شکوہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے چھبیسویں سالانہ جلسے میں پڑھی گئی جو اپریل 1911ءمیں ریواز ہوسٹل ، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس کی صدارت فقیر سید افتخار الدین نے کی تھی." (11) ص 33, اقبال کی طویل نظمیں 
 اس نظم میں اقبال شکوہ بارگاہ الہٰی میں دور حاضر کے مسلمانوں کی ایک فریاد کے طور پر کرتے ہیں کہ ہم تیرے نام لیوا ہونے کے باوجود دنیا میں ذلیل و رسواءہو رہے ہیں اور یہ شکوہ بھی کہ امت محمد? تو ہم ہیں کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی امت میں سے ہیں ، مگر انعامات و نوازشات کی بارش غیر مسلموں پر ہو رہی ہے 
جرآت اموز مری تاب سخن ہے مجھ کو 
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو 
اے خدا شکوہ ارباب وفا بھی سن لے 
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے 
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی 
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاوں میں تلواروں کی 
 جواب شکوہ
 جب اقبال نے اپنی نظم سنائی تو کچھ نا سمجھ لوگوں نے اقبال پر کفر کے فتوےٰ لگانا شروع کر دیے تو اقبال نے ڈیڑھ سال بعد نومبر 1912ءمیں جواب شکوہ لکھا اور ایک جلسے میں نظم پڑھ کر سنائی۔ اس میں ایک انسان کی طرف سے کیے گئے شکوہ کا جواب اقبال اپنے رب کی زبانی دیتے ہوئے تمام سوالوں کا جواب دیتا ہے۔
عشق تھا فتنہ گر و سر کش و چالاک مرا 
آسماں چیر گیا نالہ بے باک مرا 
کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا 
مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا 
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں 
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں 
 آج جب ہم شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا 148 واں یوم پیدائش منایا رہے ہیں اور علامہ اقبال کی پہلی اردو تصنیف بانگ درا کا صد سالہ جشن منا رہے ہیں تو ہمیں اپنی نسل نو کو فکر اقبال کے حوالے سے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کرنا چاہیے کہ اللہ پاک نے ہمیں اقبال کی شکل میں وہ مفکر عطا فرمایا جس کی فکر اور کلام کی بدولت ہم آج آزادی وطن میں سانس لے رہے ہیں اور ہمیں ملک خدا داد کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ ہم اقوام عالم میں اپنا مقام پیدا کر سکیں۔
علامہ اقبال زندہ باد 
پاکستان پائندہ باد

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...