مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے بڑے بلند و با لا دعوے کئے کہ جیسے ملک ان ترامیم کے بعد خدا ناخواستہ قائم ہی نہیں رہے گا ، بڑا شور تھا کہ آئینی ترامیم ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی ہو سکے گی ، ترامیم عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کے لئے کی جارہی ہیں ، آئین کا حلیہ بگاڑا جارہا ہے ، ان ترامیم سے آئین کا وجود ختم ہو جائے گا ، حکومت مرضی کی عدلیہ چاہتی ہے ، حکمران اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے آئینی ترامیم کر رہے ہیں ، حکمران عدلیہ کی آزادی پر شب خون مار نے جا رہے ہیں ، آئینی ترامیم بد نیتی پر مبنی ہے ، وغیرہ وغیرہ ، اس سارے سیاسی ماحول میں پی ٹی آئی نے سیاسی پارٹی ہونے کا تاثر نہیں دیا ، سیاست میں مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرنا سیاسی وطیرہ نہیں جو کہ تحریک انصاف اور اس کے بانی عمران خان نے اپنا رکھا ہے۔
آئینی ترامیم کے حوالے سے تحریک انصاف نے معاندانہ رویہ اپنائے رکھا اور ترامیم کو بہتر بنانے کے لئے کوئی تجویز نہیں دی، جس سے پی ٹی آئی کی سیاسی بصیرت کافقدان عیاں ہے،بانی ْی ٹی آئی نے سیاست میں ہمیشہ دھرا معیار رکھا ہے ، 26 ویں آئینی ترامیم کی سخت مخالفت کی لیکن ان ترامیم کے منظور ہوتے ہی سپریم کورٹ سے سب سے پہلے فائدہ اٹھانے کے لئے رجوع کر لیا ،تجویز کردہ آئینی ترامیم کی مخالفت ایک مخصوص طبقہ جو کہ نظریہ ضرورت کے حامی ہیں اور وہ ہستیاں جو کہ مخالف سیاسی جماعتوںکے خلاف یکطرفہ فیصلے دیا کرتے تھے ہیں ،قیام پاکستان کے بعد سے ہی یہ مخصوص طبقہ ملک کو عدلیہ کے ذریعے غیر مستحکم کرنے کی پالیسی پر عمل پیراء رہا ہے ، جس کہ ابتدا ء جسٹس منیر نے اس وقت کے آئین اور قانون کو پس، پشت رکھ کر نظریہ ضرورت کو متعارف کیا اور غیر مقبول جانبدارانہ فیصلہ دے کر عدلیہ میں یکطرفہ اور جانبدارانہ فیصلوں کی بنیاد رکھی ، جسٹس منیر کے پیشرو جسٹس مولوی مشاق حسین چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جنہوں نے بھٹو کیس کے شواہد سے پہلے ہی بھٹو کے ساتھ جلادوں جیسا رویہ اپنائے رکھا ، جسٹس انوار الحق بھی متنازعہ فیصلوںکی فہرست میں شامل ہیں ، جسٹس ثاقب نثار نے تو آئین و قانون کی دھجیاں بکھیر دیں اور بلیک ڈکشنری جس کا کوئی وجود ہی نہیں اس کاحوالہ دے کر ملک کے منتخب وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے دیا ، صرف یہی نہیں ان کے ہمراہی اور وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہم جو کہہ دیں وہی آئین ہے ہم جو لکھ دیں وہی قانون ہے، جسٹس لظیف کھوسہ اور جسٹس عمر بندیال نے ماضی کی روایات کو برقرار ہی نہیں رکھا بلکہ دیدہ دلیری سے غیر منصفانہ رویوں پر مبنی جانبداری سے فیصلے کئے ، حالیہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ عدلیہ کی تاریخ کا ایسا فیصلہ ہے جس کا مدعی کوئی اور لیکن فیصلہ ان کے حق میں ہوا جن کا اس کیس سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔
ایسے فیصلے جس سے عدلیہ کاوقار کو مجروح ہوا اور ملکی بدنامی کا سبب بنے ، ان کے سد باب کے لئے تجویز کی گئی آئینی ترامیم جو کہ سینٹ اور قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے منظور ہوئیں ، ملک و آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لئے انتہائی ضروری تھیں ، آئین اور قانون کو اپنی باندی سمجھنے والوں کو ان ترامیم پر اعتراض تو ضرور ہوگا چونکہ ان کی بادشاہت کا سورج غروب ہوگیاہے،اوراب راج کرے گی خلق خدا۔
وکلاء اورسوشل میڈیا پر اب سنیارٹی کا راگ آلاپاجا رہا ہے ، جب کہ عدلیہ میں چیف جسٹس صاحبان اپنی پسند اور نا پسند کے مطابق جونیئر جج صاحبان کو ترقی دے کر اعلیٰ منصب پر فائز کرتے رہے ہیں ،اس وقت کسی کو سنیارٹی کا خیال کیوں نا آیا ، جب کہ سندھ ہائیکورٹ کے موجودہ چیف جسٹس ساتھی ججز میں جونیئر تھے لیکن ان کی تعیناتی میں سنیارٹی کو مدِ نظر نہیں رکھا گیا، جسٹس منیب اختر جو نیئر جج تھے لیکن انہیں سینیئرز کے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ لیجایا گیا ، اسی طرح جسٹس عائشہ ملک جو کہ جونیئر تھیں انہیں بھی سینیئرز کی موجودگی میں سپریم کورٹ لیجایا گیا ، لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم تیسرے نمبر پر جونیئر تھیں ، دو سینیئر ججوں کے ہوتے ہوئے انہیں چیف جسٹس بنایا گیا ، جسٹس ملک شہزاد اور جسٹس شاہد بلال حسن کی سپریم کورٹ میں تعیناتی بھی سنیارٹی کو مد نظر رکھ کر نہیں ہوئی ،اب جب کہ آئین کے مطابق خصوصی پالیمانی کمیٹی نے موجودہ چیف جسٹس کی مشاورت سے تین ججوں کے نام میں سے ایک کو چیف جسٹس نامزد کر دیا ہے تو نظریہ ضرورت کے حامی عناصر کا اعتراض و احتجاج ملک میں انارکی پھیلانے کے سوا کچھ نہیں۔
ملک میں سیاسی تقسیم کی وجہ سے آئینی ترامیم کی مخالفت کی جارہی ہے جب کہ ملک کی ساری سیاسی و دینی جماعتوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تھے یہاں تک کہ بانی پی ٹی آئی نے بھی میثاق جمہوریت کو تسلیم کیا تھا، اور آئینی عدالت کے قیام کو وقت کی ضرورت قرار دیا تھا ، سر دست سیاسی پولورائزیشن اسقدر بڑھ چکی ہے کہ نظریہ ضرورت کے حامی عناصر نے آئینی ترامیم کی مخالفت کواپنی بقاء کا مسئلہ بنا لیا ہے ، توجہ طلب معاملہ یہ ہے کہ اگر نظریہ ضرورت کاحامی طبقہ بر سر اقتدار ہوتا تو انہوں نے بھی تجویز کردہ آئینی ترامیم میں آئینی عدالت کے قیام کو ترجیح دینی تھی ،اب یہ وقت کی ستم ظریفی ہے ، کہ آئینی ترامیم کی مخالفت کئے بغیر ان عناصر کو آکسیجن نہیں مل رہی۔ آئینی ترامیم آئین کا حصہ بن چکی ہیں ، اب ان ترامیم کو چند عناصر مسترد کریں یا ملک گیر احتجاج کرنے کی دھمکی دیں اس سے آئین کو بدلا نہیں جا سکتا ، پالیمنٹ ہی ملک کا واحد ادارہ ہے جو آئین میں ترامیم کرنے کا مجاز ہے ، اسے چاہے ملک کی اعلیٰ عدالت میں چیلینج کریں یا سڑکوں پراحتجاج کریں ،جو مسائل پالیمنٹ میں حل کئے جاسکتے ہیںوو سڑکوں پر یا دھرنوں سے حل نہیں ہوں گے۔
٭…٭…٭