امریکہ کے سزا یافتہ مجرم سابق صدر ٹرمپ دوسری مرتبہ سپر پاور امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے۔ امریکی عوام نے اس سے پہلے ایسی تاریخی فتح نہیں دیکھی، 50 ریاستوں میں سے 27 ریاستوں میں ریپبلیکن کامیاب ہوئی جبکہ 19 ریاستوں میں ڈیموکریٹک کملا ہیرس جیتیں، مجموعی طور پر ٹرمپ کو 50 لاکھ سے زائد ’’پاپولر ووٹس،، کی برتری ملی، دنیا بھر کی نظریں امریکن الیکشن پر لگی ہوئی تھیں۔ کملا ہیرس اس دوڑ میں تاخیر سے شامل ہوئی اس کی وجہ موجودہ صدر جو بائیڈن ہی تھے کیونکہ وہ روایتی طور پر دوسری بار الیکشن لڑنا چاہتے تھے۔ جب ضعیف العمری میں بات نہیں بنی تو اپنی نائب صدر کمیلا ہیرس کو امیدوار نامزد کر دیا ، الیکشن مہم میں بہت اتار چڑھاؤ آ ئے۔ کملا ہیرس نے اچھا مقابلہ بھی کیا لیکن حقیقت یہی ہے کہ آ ج تک امریکہ میں کوئی خاتون صدر کامیاب نہیں ہوئی اور ٹرمپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہو گیا کہ انہوں نے 45 ویں صدارتی الیکشن میں ہیری کلنٹن کو شکست دی اور اب 47 الیکشن میں کملا ہیرس کو تاریخی انداز میں ہرا دیا امریکہ انسانی حقوق اور خواتین کو برابری کا درجہ دینے کا ایک بڑا ٹھیکے دار ہے پھر بھی وہاں موجودہ جدید حالات میں بھی قدامت پرست ،،جدت پسندوں سے کہیں زیادہ ہیں یعنی ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہیں۔ فتحیابی کے بعد پہلی تقریر میں ٹرمپ نے جنگیں ختم کرنے اور امریکہ کی ترقی اور خوشحالی کے ساتھ جنوبی سرحد سے تارکین وطن کی غیر قانونی آ مد روکنے کے لیے دیوار بنانے کی خواہش کی ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ اب امریکہ کے تمام معاملات ٹھیک ہو جائیں گے لیکن ابھی انہیں صدارتی حلف اٹھانے کے لیے 20 جنوری کا انتظار کرنا پڑے گا۔ ان دو ماہ میں پینٹاگون اور سی۔ آ ئی۔ اے انہیں بریفنگ سے نہ صرف حالات سے آ گاہی دے گا بلکہ مشاورت دے گا کہ انہیں اس مرتبہ کچھ نیا کیا اور کیسے کرنا ہے؟ ان کی بریفنگ کے لیے تھنک ٹینک پہلے سے جامع تجاویز مرتب کر چکے ہیں۔ ایسے میں ان کی پہلی ترجیح کیا ہوگی یہ بات سب کو سمجھ آ جانی چاہیے۔ ان کی شخصیت ایک تاجر کی حیثیت سے کاروباری ہے لہذا پہلی ترجیح معیشت ہی ہوگی۔ وہ جنگ و جدل کے بڑے مخالف ہیں لیکن امریکہ کا سب سے بڑا کاروبار اسلحہ سازی اور سامان حرب و ضرب ہے۔ اس لیے تجارتی جنگ کی خواہش میں مال تو کہیں نہ کہیں بیچنا ہوگا۔ وہ جنگی جنونی نہیں لیکن اس وقت دو بڑی لڑائیوں میں ان کی ترجیح یوکرائن ہوگا اور مظلوم فلسطینیوں کی باری بعد میں آ ئے گی کیونکہ پیوٹن سے دوستی کے ساتھ ساتھ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ان کے خاندانی تعلقات ہیں۔ برسوں پہلے ابن خلدون نے یہ کہا تھا کہ جب کسی ملک و قوم کا سربراہ کوئی تاجر بنتا ہے تو وہ ہر بات نفع نقصان کے ترازو میں تولتا ہے۔ پھر بھی معصوم پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی پہلی ترجیح پاکستان اور ان کا دوست سابق وزیراعظم عمران خان ہوگا۔
عام سیاسی کارکنوں کی بات پر کان نہ بھی دھریں تو خاص سیاستدان ڈیوٹی فل سینیئر سابق وفاقی وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید بھی حکومت کو یہی مشورہ دے رہے تھے کہ اس سے پہلے کہ ٹرمپ الیکشن جیت کر فون کرے اورعمران خان کو رہا کر دیا جائے، عمران خاں کو خود ہی رہا کر دیں۔ لیکن اس بیان پر نہ شہباز شریف کی ٹانگیں کانپیں اور نہ ہی طاقتوروں نے کوئی پرواہ کی، اب ٹرمپ الیکشن جیت چکا ،عالمی رہنماؤں کی مبارکبادیں بھی وصول کر چکے، وزیراعظم پاکستان ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہیں، بلاول بھٹو زرداری تاریخی فتح پر مبارکباد دیتے ہوئے اس جنگ مخالف فتح سے پر امید ہیں کہ نئی حکومت امن کو ترجیح دے گی سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود اسرائیلی عوام کی رائے برقرار رہی اس سے عالمی سطح پر جمہوریت کو فروغ ملے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی اس کامیابی پر اسرائیل اور پی۔ ٹی۔ آ ئی میں جشن کا سماں ہے یقینا لوگ ان دونوں کی قدر مشترک پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایسا کیوں؟
حقیقت حال یہ ہے کہ ٹرمپ کی پہلی ترجیح پاکستان ہے اور نہ ہی عمران خان، سوشل بریگیڈ نے ادھم مچا رکھا تھا کہ جو بائیڈن نے عمران کو حکومت سے نکالا اور ٹرمپ آ کر انہیں جیل سے نکالے گا لیکن گھنٹوں گزرنے کے باوجود مشاہد حسین سید کی پیشگی اطلاع پر بھی،، ٹرمپ بہادر ،،کا فون نہیں آ یا اور خان اعظم نے اپنے چہیتوں کی تسلی کے لیے یہ اشارہ فرما دیا ہے کہ ہم اپنی بے گناہی کا مقدمہ خود لڑیں گے کسی کی مداخلت کی ضرورت درکار نہیں اور نہ ہی میں ملٹری کورٹ سے ڈرتا ہوں وہاں جانے کے لیے بھی تیار ہوں ،قیام پاکستان سے لے کر اب تک امریکہ بہادر صرف اپنی ’’چاکری،، کے لیے پاکستانیوں اور حکومت سے راہ و رسم کا قائل ہے، اس کے مفادات ہم سے زیادہ بھارت میں ہیں لہذا ہم ترجیح کیسے ہو سکتے ہیں ؟پاکستانی قوم کو امریکی ڈالرز سے پیار ہے۔ کاروبار حیات کے لیے سب کے سب جائز ناجائز طریقے سے امریکہ جانے کو تیار ہیں لیکن ذاتی طور پر امریکہ کو پسند نہیں کرتے۔ اس نے ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے پاکستان کو استعمال کیا۔ امریکہ کو یہ پتہ ہے کہ افغانستان سے نکلنے کا راستہ پاکستان کی حکمت عملی سے ہی ملا لیکن اسے یہ بھی معلوم ہے کہ ،،گڈ طالبان ،،کے نام پر کس نے انہیں پاکستانی علاقوں میں آ باد کرا کے بدامنی پھیلائی اس کے باوجود صدر ٹرمپ ایسی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں کہ وہ کسی وقت بھی کچھ بھی کر سکتے ہیں جو کسی کے گمان میں بھی نہ ہو ،اسی لیے صدر بائیڈن نے چھ ارب کی امداد فوری طور پر،، یوکرائن،، کو دے دی ہے۔ ہمارے آمرانہ دور میں،، امریکہ بہادر،، سے پیار کی پینیگیںں بہت زیادہ بڑھیں، ہمیں صدر ضیاء الحق نے،، جہاد افغانستان،، میں دھکیلا اور خوب موج میلہ کیا، روس ٹکڑے ہو گیا اور رد عمل میں دہشت گردی، طالبان ،کلوشنکو ف اور منشیات ہمارا مقدر بن گیا لیکن امریکہ بہادر کا،، ڈومور ،،کا مطالبہ ختم نہیں ہوا۔
امریکی معیشت اور اداروں پر یہودیوں کا قبضہ ہے جو اپنے مذہبی اعتبار سے مسلمانوں کو دشمن نمبر ایک گردانتے ہیں لہذا عاقبت نا اندیشوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک امریکہ کو پاکستان سے مفاد نہیں ہوگا اس وقت تک اسے پاکستانی پسند نہیں ہو سکتے، امریکن الیکشن میں ریپبلیکن جیتے یا ڈیموکریٹک، پاکستان اور پاکستانی قوم کو کوئی فرق نہیں پڑتا ،جن لوگوں نے ٹرمپ سے دوستی کا دم بھرا اور امیدیں وابستہ کیں وہ صرف ندامت کے آ نسو بہا سکتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے، امریکی پہلے امریکن ہیں اور اپنے مفادات کے غلام، پھر کوئی اور، ہم امریکی غلام نہ ہوتے ہوئے بھی اس کی غلامی کا طوق پہننے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ عمران خان کچھ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن علیمہ خان نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہمیں ٹرمپ سے کوئی امید نہیں، کیونکہ نہ وہ ابا ہے ہمارا اور نہ ہم امریکہ کے غلام ہیں اور نہ ہی اس کی کالونی۔ یہی بات رؤف حسن نے کہی ہے کہ ہم ٹرمپ کی جیت سے کوئی امید لگا کر نہیں بیٹھے، آ خر میں تسلی کے لیے تاریخی بات بھی سن لیں۔ 1960ء میں کیوبا کے آنجہانی صدر،، کاسترو،، سے کسی نے پوچھا،، آپ انتخابات میں کس کو ترجیح دیتے ہیں نکسن یا کینیڈی کو؟ ان کا جواب تھا کہ ایک ہی شخص کے پہنے ہوئے دو جوتوں کا باہم موازنہ ممکن نہیں، امریکہ میں،، دو پارٹی نظام ضرور ہے لیکن وہاں حکومت ایک ہی،، پارٹی،، کی ہوتی ہے۔ وہ پارٹی ،،صیہونی پارٹی،، ہے اور اس کے دو بازو ہیں،، ری پبلکن ونگ،، سخت گیر صیہونی طاقت کی نمائندگی کرتا ہے اور ،،ڈیموکریٹک ،،نرم صیہونی طاقت کی نمائندگی کرتا ہے۔ انکے اہداف اور حکمت عملی میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن ہر صدر کو ایک قسم کی رازداری اور نقل و حرکت کی گنجائش فراہم کرنے کے لیے ذرائع قدرے مختلف ہوتے ہیں اس جواب کے بعد پاکستانی بھی اپنی خوش فہمی دور کر لیں کہ ان کی پہلی ترجیح آ پ کبھی بھی نہیں ہو سکتے؟ ان کی پہلی، دوسری، تیسری تمام ترجیحات ان کے اپنے مفادات کی ہوتی ہیں پینٹاگون اور سی آئی اے کے پالیسی سے پہلی ترجیح بنتی ہے۔ تاھم سابق گورنر محمدزبیر نیپھر بھی ،،پھلجھڑی،، چھوڑی ہے کہ ٹرمپ جنوری میں حلف اٹھانے کے بعد عمران خان کے لئے فون کریں گے۔ اب یہ آ پ کی مرضی اس بات پر یقین کریں نہ کریں لیکن وہ بھی آئے گا اور گزر جائیگا، تاھم ٹرمپ انہونی اور ایڈوانچرز کے عادی ہیں اسلئے امید بھی رکھی جاسکتی ہے۔ خوابوں اور خواہشات پر پابندی کی گنجائش نہیں۔