اس وقت لاہور بہت اداس ہے۔ سموگ نے لاہور جیسے تاریخی شہر کی ساری رونق گرد آلود کر دی ہے۔ہائی کورٹ کی طرف سے مارکیٹیں رات آٹھ بجے بند کر دینے کے احکامات آ گئے ہیں۔ بازاروں کے اوقات بھی محدود کئے گئے ہیں۔ جسٹس شاہد کریم نے انتظامیہ کو خود میدان میں نکلنے اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بند کرنے کے ساتھ 50 ہزار تک جرمانے کے احکامات بھی دئے ہیں۔ اس سے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تعلیمی ادارے بے آباد ہیں۔ پہلے پھولوں جسے بچے اپنے اوراپنی نانی اماں کے گھر وں میں بند ہو کر رہ گئے ہیں۔ اجلے لباس اور یونیفارم جو شہروں کے گلی کوچوں کو پر بہار بنائے رکھتے تھے اب تہہ کر کے الماریوں میں رکھ دیئے گئے ہیں اور اس وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے جب آسمان سے بارش اترے اور وہ مٹی مٹی ہوتی زمین کا چہرہ صاف کرے۔اس آفت کے اسباب پر بھی اب بہت بحث ہونے لگی ہے۔ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ سینئر صحافی اسلم ملک نے ایک رپورٹ فیس بک پر شیئر کرکے سوال اٹھا یا ہے کہ جب سموگ کی زیادہ ذمہ داری کسانوں سے زیادہ ٹرانسپورٹ کی ہے، ناقص ڈیزل اور پٹرول کی ہے تو صرف کسان ہی مورد الزام کیوں ٹھہرائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ کسانوں کی طرف سے جلائے جائے والے چاول کی باقیات کو کاغذ اور گتے کی پرڈکشن کے لئے استعمال میں لاکر کسانوں پر لگے الزام کو ان کی مدد میں بدلا جا سکتا ہے۔ ایک عزیز جمشید عالم نے پاکستان کی اب تک کی برسوں کی بے سمت قیادت کی جد و جہد کو کسی کے ایک شعر میں سمویا ہے
پوشاکِ زندگی تجھے سیتے سنوارتے
سو چھید ہو گئے ہیں رفو گر کے ہاتھ میں
وزیر اعلی مریم نواز شریف خود تو بیرون ملک ہیں لیکن اپنے پیچھے پنجاب کی قیادت کو صورت حال کی روشنی میں ہدایات جاری کررہی ہیں چنانچہ پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ سموگ کی صورت حال کے پیش نظر سپورٹس گالا ملتوی کر دیا ہے اور اب سموگ کے بعد سپورٹس گالا منعقد کیا جائے گا۔ سینئر افسران کے ذریعے پنجاب حکومت نے لاہور میں شہریوں میں ماسک فراہمی کی مہم شروع کر دی۔ حکومت کی ہدایت پر مساجد سے سموگ کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور غیر ضروری گھروں سے نہ نکلنے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب حکومتی اقدامات کے باوجود لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں ایک بار پھر پہلے نمبر پر موجود رہا جبکہ شہر میں سموگ کی ابتر صورتحال کے باعث شہریوں میں مختلف امراض پھیلنے لگے۔ لاہور میں فضائی آلودگی کی صورتحال گذشتہ روز بھی ابتر رہی۔ صبح کے وقت ایئر کوالٹی انڈیکس(اے کیو آئی) 824ریکارڈ کی گئی۔ بھارت کا شہر نئی دہلی 439 ایئر کوالٹی انڈیکس کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ سپورٹس رپورٹر کے مطابق یوتھ فیسٹیول میں 28 یونیورسٹیز اور کالجز کے 1 ہزارسے زائد طلبہ شریک تھے۔ لاہور یوتھ فیسٹیولز میں اتھلیٹکس کے فائنلز مقابلے ہوئے تھے، 8 سے 10 نومبر تک یوتھ فیسٹیول کے باقی مقابلوں کے فائنلز شیڈول تھے، کل 100 میٹر ریس اور رسی کشی کے مقابلے ہونا تھے۔ میراتھن، فن ریس، جمناسٹک اور سائیکلنگ کے مقابلوں کی نئے تاریخوں کا اعلان بعد میں کیاجائے گا۔ دہلی میں لاہور کے مقابلے میں صورت حال بہتر کیوں ہے اس پر بھی غور کی ضرورت ہے۔شائد فرق سموگ کی حد تک ہی سہی، قانون کی حکمرانی کا ہے۔کبھی لاہور میں چنگ چی جیسی منہ پھاڑ ٹرانسپورٹ کی اجازت ہی نہیں دی جا رہی تھی اور اب یہ حال ہے کہ چنگ چی سمیت ایسی ملتی جلتی تمام ترانسپورٹ کو اس کی تمام خرابیوں کے باوجود لاہوریوں پر اس طرح چھوڑ دیا گیا ہے جیسے جسم میں رگوں کی صورت ہے۔ اب حکومت کواس میدان میں آہنی ہاتھ لے کر آنا ہوگا۔ورنہیہ زندگی کا سفر رائیگاں تو ہے ۔حکومت کے ساتھ ساتھ آج کی صورت حال میں کچھ کردار آج کے سماجی ورکر بھی ادا کرسکتے ہیں۔
انسانیت کیلئے رات دن ایک کرنیوالے عبدالستار ایدھی سمیت بڑے قد کے تمام لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد میں ایثار اور دوسرو ں کیلئے قربانی کا جذبہ دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اگر قائد اعظم کے بعد انہی جیسے جذبے والے قائدین بھی قوم کونصیب ہوتے تو پاکستانی قوم آج دنیا کی کامیاب ترین قوم ہوتی۔ بلا شبہ پاکستانی قوم میں ایسے ایسے سماجی کارکن موجود ہیں جن کی خدمات کو ان کے علاقے کے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ پاکستان تمام تر مشکلات کے باوجود اگر آج بھی قائم ہے تو اس میں ایسے ہی انسانوں سے محبت کرنے والے عام پاکستانیوں کا بڑاکردار ہے۔ انہیں آپ گمنام سماجی کارکن کہ سکتے ہیں لیکن اللہ کی طرف سے ایسے لوگوں کو بے لوث خدمات کا یہ ثمر ملتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے خاموش دعائوں کے حق دار ٹھہرتے ہیں اورایک زمانہ ان کو یاد کرتا ہے۔ ایسے ہی ایک سماجی کارکن حلیم الدین آج مجھے یاد آ رہے ہیں۔1976 میں منڈی روڈالہ روڈ تحصیل جڑانوالہ اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرنے والے حلیم الدین کی ہر سال 9 نومبر کو برسی منائی جاتی ہے۔ علاقے میں ان سے وابستہ کئی یادیں تازہ کی جاتی ہیں۔ صرف چند یادوں کا تذکرہ ان کی سوچ کو عام کرنے کیلئے کافی ہے۔1966ء میں ملک میں آٹے کا بحران پیدا ہوگیا۔ سب کو اپنی اپنی پڑ گئی۔ دیہات میں بھی نفسا نفسی کا عالم تھا۔ حلیم الدین نے علاقے کے ایک دو اور دوستوں کو ساتھ لیا۔ ڈپٹی کمشنر لائلپور) اس وقت فیصل آباد کا یہی نام تھا ( سے اپنے قصبے کیلئے 15من روزانہ کا آٹے کا کوٹہ منظور کروایا۔ روزانہ صبح اٹھتے۔ پہلی ٹرین پر جڑانوالہ جا کر آٹا وصول کرتے اور اپنے دیہی علاقے میں نو پرافٹ نو لاس کی بنیاد پر تقسیم کرواتے اور دعائیں لیتے۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رکھا جب تک بحران ختم نہیں ہوگیا۔1973ء میں پاکستان میں تمام کرنسی نوٹ تبدیل کر دئے گئے تھے۔ رواج کے مطابق لوگوں کے پاس گھروں میں نوٹ بھرے رکھے تھے۔ گائوں میں حبیب بنک کی ایک مینیجر اور ایک ہی کیشئر پر مشتمل چھوٹی سی برانچ تھی۔ نوٹوں کی تبدیلی کے لئے مقررہ فارم پر ایک ایک نوٹ کا نمبر لکھنا ہوتا تھا۔ پہلا مسئلہ ہی فارم پر نوٹوں کے نمبر لکھنا تھا اور اسی ترتیب سے کیشئیر اپنے اطمینان کے لئے نوٹوں کے نمبر چیک کرتا اور یوں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے چند لوگ جمع کروا پاتے اور باقی اپنی باری کے لئے کھڑے کھڑے بے سدھ ہو جاتے اوربات اگلے دن تک چلی جاتی۔ چونکہ حلیم الدین اپنے علاقے کے پڑھے لکھے اور جانے پہچانے سماجی ورکرتھے اس لئے بنک والوں نے بھی اور لوگوں نے بھی انہیں پکارا تو بات بننے لگی۔بنک والوں نے کہا کہ حلیم الدین فارموں میں جتنے نوٹوں کے نمبر وار اندراج کر دیں گے ان کے دستخط دیکھ کر فارم جمع کر لئے جائیں گے۔ اب لوگ رات گئے تک اپنے نوٹوں کے تھیلے بھر بھر کر حلیم الدین کے پاس آتے اوروہ رات رات بھر جاگ کر فارم پر کرتے اور یہ سب کام فی سبیل اللہ کیا جاتا۔ بنک واے ان کے دستخط دیکھتے اور فارم پر مہر لگا کر واپس کردیتے۔ یہ علاقے میں انکی شخصیت پر اعتبار اور سماجی خدمت کا ایوارڈ تھا۔ اسی طرح اپنے قصبے میں بجلی کی فراہمی تعلیمی خدمات اور دوسری بہت سی مثالیں ہیں جن کا بیج انہوں نے بویا اور پھر خدمت خلق کا یہ سلسلہ ان کے فرزند محمد اقبال ظفر سابق بنک آفیسر اور صدر مزدور محاز پاکستان تک چلتا گیا۔ ان گمنام سماجی ورکروں کے کاموں کے تذکرے کا ایک مقصدیہ بھی ہوتا ہے کہ سماج میں اس جذبے کو مہمیز ملے اوردوسرے لوگوں میں بھی بے لوث انسانی خدمت کے جذبے اجاگر ہوں۔اس وقت سموگ کی صورت حال میں عوام کو جس امتحان کا سامنا ہے اس میں حکومت کے ساتھ سماجی ورکر بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔عوام کو سموگ کے اسباب سے آگاہ کرنے ، دھواں چھوڑے والی گاڑیوں کے مالکان کو تنبیہ کرنے اور ایسے ہی دوسرے اقدامات میں معاونت کر سکتے ہیں۔۔ اور ہرکہ خدمت کرد او مخدوم شد۔۔۔کے مصداق مستقبل کے حلیم الدین بن سکتے ہیں جن کیلئے لوگ ان کی زندگی کے بعد بھی دعائیں کرتے ہیں۔