ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی یہ کہے آپ کے کپڑے مبارک میلے تھے۔ علامہ محمد اقبال بہت بڑے فلسفی تھے سارا معاملہ عقل کے بل بوتے پر کرتے تھے لیکن کبھی بھی سیرت مصطفی ؐ کو عقل کی کسوٹی پر جانچنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔ اس معاملہ میں وہ ایمان بالغیب کے قائل تھے بس حضور نبی کریم ﷺ نے جو فرما دیا وہ دین وایماں اور سر آنکھوں پر۔ایک مرتبہ آپ سے کسی نے پوچھا کہ حضور نبی کریم ﷺ کا دیدار کیسے ممکن ہے تو آپ نے فرمایا کہ پہلے ان کے اسوہ حسنہ پر عمل کرو اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالو اور پھر اپنے آپ کو دیکھو۔ یہ ہی آپ کا دیدار ہے۔
حقیقی محبت محبوب سے منسوب ہر چیز سے محبت کا تقاضا کرتی ہے اقبال نے بھی محبت کے اس تقاضے کو کما حقہ پورا کیا ہے۔ انہیں حضورﷺکے شہر اقدس کی خاک ذروں سے اس قدر عقیدت ہے کہ وہ ان ذروں کو جہان کی ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں:
خاک یثرب از دو عالم خوش تراست
اے خنک شہرے کہ آنجا دلبرداست
مدینہ منورہ کی قدرو منزلت اور خاک حجاز سے عقیدت میں علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
وہ زمین ہے تو مگر اے خوابگاہ مصطفی ؐ
دید ہے کعبے کو تیری حج اکبر سے سوا
خاتم ہستی میں تو تاباں ہے مانند نگیں
اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں
تجھ میں راحت اس شہنشاہ معظم کو ملی
جس کے دامن میں اماں اقوام عالم کو ملی
علامہ اقبال جب ارض و سما پر نظر ڈالتے ہیں اور جہان رنگ و بو کی گہرائیوں میں اتر کر دیکھتے ہیں تو انہیں ہر پہلو وجود عشق مصطفی ؐ
سے لبریز نظر آتاہے۔ آپ فرماتے ہیں :
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش امادہ اسی نام سے ہے
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تصوف سے لگن ، رومی ، جامی ، حضرت داتا گنج بخش، بابا فرید الدین مسعود ، سلطان الہند خواجہ غریب نواز
، نظام الدین اولیا ء رحمۃ اللہ علیھم اجمعین کے افکار و فرمودات سے میسر آئیں۔
ڈاکٹر این میری شمل لکھتی ہیں کہ آپ داتا صاحب کے ماننے والے تھے اور صبح کی نماز مسجد داتا صاحب میں روحانی سکون اور عرفان کے لیے ادا کرتے تھے۔ پروفیسر محمودالحسن اپنی تصنیف ’’داتا گنج بخش علیہ الرحمہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کو مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کا خیال اسی مسجد میں نماز کی ادائیگی کے دوران ہی آیا تھا۔