کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر ہفتے کی صبح 9 بجے کے قریب جعفر ایکسپریس کے اپنی منزل کی جانب روانہ ہونے سے قبل خودکش حملے کی خوفناک واردات میں 14 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 25 افراد شہید اور پچاس سے زائد زخمی ہو گئے۔ شہید ہونے والوں میں ریلوے کے اہلکار اور مسافر بھی شامل ہیں جبکہ دس زخمیوں کی حالت انتہائی تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ عالمی نشریاتی اداروں سی این این اور بی بی سی نے کوئٹہ ریلوے دھماکے کے بارے میں اپنی جو تازہ ترین رپورٹیں جاری کی ہیں۔ انکے مطابق اس خودکش حملے کی ذمہ داری بلوچستان کی دہشت گرد علیحدگی پسند عسکری تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کرلی ہے جس کی جانب سے اس واقعہ کے بارے میں باقاعدہ بیان جاری کیا گیا ہے۔ یہ خودکش حملہ کوئٹہ ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر عین اس وقت ہوا جب جعفر ایکسپریس روانگی کیلئے تیار تھی اور اس میں مسافر سوار ہو رہے تھے۔ اس وقت پلیٹ فارم پر سو سے زیادہ افراد موجود تھے۔ سی این این نے عینی شاہدین کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ دھماکے کے وقت لوگ بدحواسی اور خوف کے عالم میں دھکم پیل کرتے آگے پیچھے بھاگتے نظر آئے جبکہ انسانی جسموں کے لوتھڑے پلیٹ فارم پر جگہ جگہ بکھرے ہوئے تھے۔ اسی طرح انسانی جسموں کے چیتھڑے فضا میں اڑتے ہوئے بھی نظر آئے۔ کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات کے مطابق اس خودکش حملے میں سویلین باشندوں کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے کچھ افراد بھی شہید ہوئے ہیں۔ انکے بقول حملہ آور اپنا سامان اٹھائے مسافروں کے ساتھ ہی ریلوے سٹیشن میں داخل ہوا تھا جبکہ ایسے لوگوں کی شناخت کرنا بالعموم مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ زخمیوں کی فوری طبی امداد کیلئے سول ہسپتال کوئٹہ میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے اور ڈاکٹروں سمیت اضافی طبی عملہ طلب کرلیا گیا ہے۔ ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند کے مطابق وقوعہ کی اس حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہے کہ کس کی غفلت کے نتیجہ میں خودکش حملہ آور کو پلیٹ فارم پر آکر دھماکہ کرنے کا موقع ملا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگتی نے بلوچستان کابینہ اور انتظامیہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہوئے باور کرایا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمہ تک انسداد دہشت گردی کے اپریشن جاری رکھے جائیں گے اور ہم آخری دہشت گرد کے خاتمہ تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
قائم مقام صدر مملکت سید یوسف رضا گیلانی نے کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر ہونیوالی دہشتگردی کی سفاکانہ واردات کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ نہتے عوام کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد انسانیت کے دشمن ہیں۔ انہوں نے دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کیلئے تمام ممکنہ اقدامات کی بھی ہدایت کی۔ اسی طرح وزیراعظم محمد شہبازشریف نے بھی بلوچستان حکومت سے دہشت گردی کے اس واقعہ کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے باور کرایا کہ دہشت گردوں کو اسکی قیمت ادا کرنا پڑیگی۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی کوئٹہ بلاسٹ کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ ملک دشمن عناصر ایسی وارداتوں کے ذریعے ملک میں خوف و ہراس پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ 2000ء کی دہائی میں جنرل مشرف کے دور آمریت میں امریکی نیٹو افواج کی شروع کردہ افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرنے کے ردعمل میں افغان انتہاء پسند تنظیموں کی جانب سے پاکستان کے اندر، بالخصوص شمالی اور جنوبی وزیرستان‘ خیبر پی کے اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جس سے ملک میں امن و امان کی خرابی کا تاثر ملا تو ہمارے ازلی دشمن بھارت نے بھی ان حالات سے فائدہ اٹھا کر دہشت گردوں کی سرپرستی شروع کر دی چنانچہ بھارتی سرپرستی اور فنڈنگ کے ساتھ انتہاء پسند گروپوں سے منسلک دہشت گردوں کو افغان سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہونے اور یہاں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرنے کا موقع ملا۔ بلوچستان میں اس وقت فرقہ واریت کی بنیاد پر دہشت گردی کی اکا دکا وارداتیں ہوتی رہتی تھیں تاہم 2005ء میں مشرف حکومت نے بلوچ قوم پرست رہنماء نواب اکبر بگتی کیخلاف اپریشن کا آغاز کیا جس کے دوران وہ اپنے محفوظ ٹھکانے پر سرنگ کے اندر ہلاک ہو گئے تو اسکے ردعمل میں ناراض بلوچ نوجوان بھی حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے کیلئے سرگرم ہو گئے اور بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھا کر انکی بھی سرپرستی اور فنڈنگ شروع کر دی۔ اسی دوران بلوچستان کی علیحدگی پسند عسکری تنظیمیں بی ایل ایف اور بی ایل اے بھی متحرک ہوئیں جنہوں نے بلوچستان میں پاکستان مخالف تحریک کا آغاز کیا اور بالخصوص پنجابی آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کر دیا جو ہنوز جاری ہے۔ اسی طرح بلوچستان کی محرومیوں کا بھی علیحدگی پسند عناصر کی جانب سے شور اٹھنے لگا جنہوں نے بلوچستان کی علیحدگی کیلئے امریکی کانگرس تک سے قراردادیں منظور کرالیں۔ مشرف دور کے بعد تشکیل پانے والی سول حکومتوں نے ناراض بلوچوں کو مطمئن کرنے اور انہیں سیاست کے قومی دھارے میں لانے کی ہر ممکن کوششیں کیں اور بلوچستان کی ترقی کیلئے مختلف پیکیجز کا بھی اعلان کیا مگر بھارت کی آشیرباد کے ساتھ یہ عناصر بلوچستان میں پاکستان مخالف جذبات ابھارتے رہے۔
2014ء میں پاکستان اور چین کے مابین گوادر پورٹ سے منسلک اقتصادی راہداری (سی پیک) کا معاہدہ ہوا جو پاکستان کی اقتصادی ترقی و خوشحالی کیلئے بلاشبہ ایک گیم چینجر منصوبہ ہے چنانچہ بھارت نے اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں کا بھی آغاز کر دیا جس کیلئے علیحدگی پسند عناصر کی صفوں میں موجود دہشت گردوں کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے گوادر پورٹ کے نواحی علاقوں میں بالخصوص چینی باشندوں اور سی پیک پر کام کرنے والے چینی انجینئروں کو ٹارگٹ کرکے انہیں دہشتگردی کی بھینٹ چڑھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کا مقصد پاکستان اور چین کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرکے انکی بے لوث دوستی میں دراڑیں ڈالنے کا بھی تھا۔ اس حوالے سے بطور خاص گزشتہ ماہ اکتوبر میں مستونگ میں چینی باشندوں کو ٹارگٹ کرکے دہشت پھیلائی گئی اور کراچی میں چینی انجینئروں اور سرمایہ کاروں کو ٹارگٹ کیا گیا جس سے دو چینی انجینئر ہلاک ہوئے۔ بی بی سی اور سی این این کی رپورٹوں کے مطابق ان وارداتوں میں بھی بی ایل اے کے دہشت گرد شامل تھے جبکہ بی ایل اے نے کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری بھی واردات کے فوری بعد قبول کرلی ہے تو اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ بلوچستان کی یہ دہشت گرد تنظیم دہشت گردی کی گھنائونی وارداتوں کے ذریعے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے اور پاکستان چین تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کے بھارتی ایجنڈے کو پایہ تکمیل کو پہنچانے کی کوشش کررہی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں بہرحال خیبر پی کے اور بلوچستان میں پاک افغان سرحدوں پر مکمل چیک رکھنے اور سکیورٹی فورسز میں موجود لیپس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ انسانیت کے دشمن دہشت گردوں کو تو یقیناً انسانی خون کے بہنے پر خوشی ہوتی ہے اس لیئے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ریاستی ذمہ داری نبھانے میں کوئی دقیقہ فروگزشت نہیں ہونا چاہیے۔ سی پیک پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی حفاظت تو ہماری قومی ذمہ داری ہے۔