مولانا اشرف علی تھانوی ایک ہمہ جہت شخصیت

Nov 10, 2024

مولانا مجیب الرحمن انقلابی
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کا شمار ان ممتاز ہستیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا…… اور ان کی تصنیفات کی تعداد 1400 ہے،ان ہی کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ میرے پاس ایک ایسا عالم دین ہے کہ اگر ان کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور پورے ہندوستان کے بقیہ علماء کا علم دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو ان کا پلڑا بھاری ہو گا اور وہ ہیں مولانا اشرف علی تھانوی۔آج ملک بھر کی امن کمیٹیاں اور علماء کرام حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھا نوی کے اس سنہرے اصول اورخوبصورت امن  فارمولے "اپنے مسلک کو چھوڑو نہیں اور دوسرے کے مسلک کو چھیڑو نہیں "  پر عمل پیر ا ہیں۔
 حکیم الامت حضرت تھانوی نے تو قیام پاکستان سے بھی پہلے اس ضرورت کی طرف علماء کو متوجہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:’’ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ مسلم لیگ والے کامیاب ہو جائیں گے اور بھائی جو سلطنت ملے گی وہ انہی لوگوں کو ملے گی لہٰذا ہم کو یہ کوشش کرنا چاہیے کہ یہی لوگ دیندار ہو جائیں۔‘‘ قیامِ پاکستان میں مولانا اشرف علی تھانوی کی دعائیں کوششیں اور ان کے خلفاء و رفقاء کا بنیادی کردار ہے اسی وجہ سے مولانا اشرف علی تھانوی کے حکم پر بانی جامعہ اشرفیہ لاہور حضرت مفتی محمد حسن نے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی،مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع اور دیگر علمائے دیوبند کے ہمراہ تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا اور کئی جگہ مسلم لیگ کے امیدواروں کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا جس کے نتیجہ میں پاکستان بننے کے بعد مشرقی و مغربی پاکستان پر آزادی کا پرچم لہرانے کی سعادت ’’بزم اشرف‘‘ کے روشن چراغ اور دارالعلوم دیوبند کے قابل فخر سپوت حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو حاصل ہوئی۔ اپریل 1943ء میں دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہوا جس میں شرکت کے لئے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے پاس دعوت نامہ ارسال کیا گیا دعوت نامہ کے جواب میں مسلم لیگ کی مذہبی تربیت کافریضہ سر انجام دیتے ہوئے لکھا کہ میری دو کتابیں ارکانِ مسلم لیگ عملی زندگی میں اختیار کر لیں، حیاۃ المسلمین اور صیانۃ المسلمین… گویا کہ حضرت تھانوی کی نظر میں ہندوستان میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کا دستور حیاۃالمسلمین اور نظام صیانۃ المسلمین ہونا چاہئے تھا۔
حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی نے1930ء  میں مسلمانوں کی حالت کودیکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی حالت کا تصور اگر کھانے سے پہلے آجاتا ہے تو بھوک اڑجاتی ہے اور سونے سے پہلے آجاتا ہے تو نیند اْڑ جاتی ہے ان حالات میں مسلمانوں کی فلاح وکامیابی کیلئے حضرت تھانوی نے کتاب’’حیاۃ المسلمین‘‘ تحریر کی اور اس کے نصاب و نظام کوجاری کرنے کے لیے حضرت تھانوی نے 1930ء  میں مجلس صیانۃ المسلمین کے نام سے اصلاحی و خانقاہی تنظیم قائم کی اور قیام پاکستان کے بعد حضرت مولانا جلیل احمد شیروانی (المعروف پیارے میاں)نے بانی جامعہ اشرفیہ لاہورحضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب کی زیر سرپرستی ’’مجلس صیانۃ المسلمین‘‘ کے تنظیمی سلسلہ کو پاکستان میں جاری کیا،حضرت مولانا جلیل احمد شیروانی کے بعد حضرت مولانا نجم الحسن تھانوی،شیخ الحدیث مولانامحمدادریس کاندہلوی،حضرت مفتی جمیل احمد تھانوی ، حضرت مولانا محمدمالک کاندھلوی، حضرت مولانا محمد عبیداللہ قاسمی، حضرت مولانا نذیر احمد، حضرت مولانا مفتی سید عبدالشکور ترمذی،حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر، حضرت مولانا مشرف علی تھانوی و دیگر اکابرین کی سرپرستی میں حضرت مولانا وکیل احمد شیروانی اور حضرت مولانا عبدالدیان سلیمی نے اپنے خون جگر سے مجلس صیان المسلمین پاکستان کی آبیاری کی آج بھی مجلس صیانۃ المسلمین، پاکستان کے صدر حضرت مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور،نائب صدر حضرت مولانا مفتی محمدطیب،نگران اعلیٰ قاری ارشد عبید اورمولانا یاسر نور سمیت دیگر اکابرین کی سرپرستی میں مصروف عمل ہے، مجلس صیانۃ المسلمین پاکستان کا ترجمان ماہنامہ ’’الصیانہ‘‘ کا مولانا وکیل احمد شیروانی نے 1990ء  میں آغازکیا تھا جو آج بھی ان کے صاحبزادے خلیل اشرف خان شیروانی سیکرٹری مجلس صیانۃ المسلمین کی ادارت میں جاری ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو اوقات کی پابندی کا خیال بہت زیادہ رہتا، ان میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا انتہائی مجبوری کی صورت کے سوا کسی قسم کا کسی کے ساتھ استثناء نہ ہوتا،حضرت ِ تھانوی قرآن و حدیث، فقہ وتفسیر اور معرفت و سلوک میں غیرمعمولی امتیاز و تفوق کے علاوہ نفسیات شناس بھی تھے،انسانوں کی نفسیات میں انھیں گہرا دراک حاصل تھا کہ کس انسان سے کب اور کیا برتاؤ کیاجائے، اس سے وہ بخوبی واقف تھے اوریہ وہ خوبی ہے جو اصلاح و تربیت اور دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے نہایت ناگزیر ہے۔
جہاں ایک طرف علامہ سید سلیمان ندوی سے لے حضرت مفتی محمد حسن سمیت سینکڑوں علماء  و صلحاء آپ کے دامن عقیدت سے وابستہ اور دست حق پر بیعت تھے وہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افرادکے علاوہ برصغیر پاک وہند کے دو نامور شعراء جگر مراد آبادی اور حفیظ جون پوری نے بھی آپ کے ہاتھ پربیعت کرتے ہوئے توبہ کی۔ 
حضرت تھانوی کے 200 سے زائد خلفاء ہیں جن میں سے چند ایک مشہور ہستیاں یہ ہیں  شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی،مفتی محمد حسن ، حضرت مولانا عبدالغنی پھولپوری،، حضرت مولانا جلیل احمد شیروانی،ڈاکٹر محمد عبدالحی عارفی، مولانا فقیر محمد پشاوری ، مولانا مسیح اللہ خان ، مولانا ابرارالحق ، مولانا رسول خان ہزاروی، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی، علامہ سید سلیمان ندوی ، مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی،مولانا سید مرتضیٰ حسن چاندپوری ، مولانا عبدالرحمن کاملپوری، مولانا مفتی سیّد عبدالکریم گھمتھلوی ، خواجہ عزیز الحسن مجذوب  و دیگر خلفاء  شامل ہیں۔مولانا اشرف علی تھانوی بے حد منظم اور بااصول شخص تھے ان کی حکمت و دانائی اور فہم وتدبر کے باعث سینکڑوں گم گشتگانِ راہ کومنزل نصیب ہوئی،مولاناتھانوی  انھوں نے اِسی نظم وضبط اور اصول وضوابط کی روایت کو اپنے مریدوں اور قریب رہنے والوں میں بھی پروان چڑھانے کی کوشش کی اس سے ان کی غرض صرف یہی تھی کہ لوگوں کو سکون اور راحت حاصل ہو ان کا احساس تھا کہ نظم و ضبط اور اصول پسندی کے بغیر کوئی دعوت یا تبلیغ مؤثر نہیں ہوگی یہ مولانا تھانوی کی زندگی کاایک ایسا وصف ہے جو ہمارے آج کے داعیوں، مربّیوں اور مبلغوں کی زندگیوں میں مفقود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اشرف علی تھانوی کسی شخص یا فرد کانام نہیں، بلکہ ایک علمی، روحانی اور تربیتی ادارے کا نام ہے،وہ اپنی ذات میں ایک ایسی دانش گاہ تھے، جس نے اصلاح و تربیت کے لاتعداد پیاسوں کی پیاس بجھائی وہ سلسلہ بالواسطہ طورپر آج بھی جاری ہے، آج کے دور میں دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کاکام کرنے کے لیے ان کی تعلیمات مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
آپ کی تصانیف اور رسائل کی تعدادتقریبًا1400تک ہے،ان میں سے چند ایک کے نام پیش خدمت ہیں تفسیر بیان القرآن،بہشتی زیور،احیاء  السنن،امداد الفتاوی،الانتباہات المفیدہ،اعلاء  السنن،المصالح العقلیہ،حیا المسلمین، شوق وطن،جمال القرآن،،نشر الطیب،کلید مثنوی مولانا روم  کی مثنوی کی شرح اور دیگرکتب شامل ہیں۔
ملک کے معروف دینی ادارہ جامعہ اشرفیہ لاہور میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی قائم کردہ اصلاحی تنظیم ’’مجلس صیانۃ المسلمین‘‘کا سالانہ اصلاحی و روحانی اجتماع 10نومبر 2024 ء  بروز اتوار بعدنماز ظہر تا بعدنمازعشاء مجلس کے صدر حضرت مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی کی زیرصدارت منعقد ہوگا۔اجتماع سے حضرت حکیم الامت مولانااشرف علی صاحب تھانوی کے سلسلہ کے خلفاء کرام اور سلسلہ عالیہ چشتیہ امدادیہ اور خانقاہ اشرفیہ تھانہ بھون سے وابستہ اہل طریقت اور ملک بھر کی نامور علمی و دینی شخصیات مولانا قاری ارشد عبید،مولاناشاہ حکیم محمد مظہر،مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مفتی محمد طیب،مولانا قاری احمد میاں تھانوی،مولانا جلیل اخون،مولانا محمد یوسف خان،مولانا حافظ زبیر حسن،مفتی عبدالقدوس ترمذی،ڈاکٹر نعیم اللہ اور مولانا ڈاکٹر محمد سعد صدیقی سمیت دیگر نامور علمی و دینی شخصیات شرکت و خطاب کریں گی۔
ملک کی موجودہ صورت حال میں جامعہ اشرفیہ لاہور میں منعقد ہونے والا مجلس صیان المسلمین کایہ اصلاحی و روحانی اجتماع اصلاح امت،قیام امن، فرقہ واریت کے خاتمہ، اتحاد بین المسلمین کے فروغ اور نسل نو کے ایمان کی حفاظت میں اہم کردار ادا کرے گا،وہ لمحات جو اللہ والوں کی صحبت میں گذریں وہ دنیا کی قیمتی ترین متاع اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ہیں۔

مزیدخبریں