ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگلے جنوری میں اقتدار سنبھالتے ہی ایران کے حوالے سے"زیادہ سے زیادہ پابندیوں" کی پالیسی پر واپس آنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو انہوں نے اپنی پہلی مدت کے دوران ایران پر عائد کی تھیں۔اس معاملے سے واقف لوگوں نے تصدیق کی ہے کہ ٹرمپ اپنی دوسری مدت کے دوران دباؤ بڑھا سکتے ہیں۔ایران کی جانب سے ٹرمپ کے قتل کے حوالے سے مبینہ سازش کے الزامات سامنے آنے کے بعد نئی امریکی انتظامیہ تہران کے خلاف مزید سخت رویہ اپنا سکتے ہیں۔اس تناظر میں ٹرمپ کے پہلے دور میں مشرق وسطیٰ کے امور کے لیے پینٹاگان کے ایک سینیئر اہلکار مک ملروئے نے وضاحت کی کہ "لوگ اکثر ایسے معاملات کو ذاتی طور پر لیتے ہیں۔ ان کا اشارہ قتل کی کوشش کی طرف تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ سخت گیر پالیسی اختیار کر سکتے ہیں۔
ایرانی تیل کی خریدو فروخت
ٹرمپ کے منصوبوں سے واقف ذرائع اور ان کے سینئر مشیروں کے ساتھ رابطےمیں رہنے والے افراد کا کہنا ہے ان کی نئی ٹیم ایرانی تیل کی فروخت کو روکنے کی کوشش کرنے اور تہران کے ساتھ تجارت کرنے والے غیر ملکی بندرگاہوں اور تاجروں کا پیچھا کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھے گی۔دریں اثنا امریکی توانائی کے ایک سابق اہلکار رابرٹ میک نیلی نے کہا کہ منتخب صدر کی انتظامیہ ایرانی تیل حاصل کرنے والی چینی بندرگاہوں پر پابندی عائد کر سکتی ہے۔ اسی طرح ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کی مالی معاونت کرنے والے عراقی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کر سکتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ تیل کی پابندی پر سختی سے عمل درآمد کی توقعات چینی تیل کی خریداری میں یومیہ 500,000 بیرل کم کرنے کے لیے کافی ہوں گی۔
سزائیں واپس آ رہی ہیں
وائٹ ہاؤس کے ایک سابق اہلکار نے کہا کہ "مجھے لگتا ہے کہ آپ دوبارہ پابندیاں دیکھیں گے، یہاں تک کہ اس بار زیادہ رفتار سے ایران پر پابندیاں عاید ہوں گی"۔انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ نئی انتظامیہ ایران کو تنہا کرنے کی کوشش کرے گی۔ تہران اس وقت کمزور پوزیشن میں ہے اور اس لیے اس کمزوری سے فائدہ اٹھانا مناسب ہے"۔
سفارتی اور اقتصادی تنہائی
ٹرمپ انتظامیہ میں ایران کے امور کے لیے سابق امریکی ایلچی برائن ہک نے دو روز قبل ’سی این این‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی صدر نے تہران کو سفارتی طور پر تنہا کرنے اور اقتصادی طور پر کمزور کرنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ وہ حماس ، حزب اللہ ، یمن میں حوثیوں اور عراق اور شام میں دوسرے ایجنٹوں کی مدد نہ کرسکے۔قابل ذکر ہے کہ ریپبلکن صدر نے 2018ء میں جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تھی اور اگلے سال 2019ء میں ایران سے خام تیل کی برآمدات پر دوبارہ مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔ ان پابندیوں کے بعد 2020ء کے اوائل تک اس کی ترسیل کم ہو کر دو لاکھ پچاس پزار ہزار بیرل یومیہ رہ گئی تھی۔