وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب میں مسئلہ فلسطین پرعرب سمٹ میں شرکت کرنے کیلئے لاہور سے ریاض روانہ ہوگئے ہیں. وزیراعظم دو روزہ سرکاری دورے پر سعودی عرب جائیں گے، دورہ سعودی عرب کے اختتام پر وزیراعظم کوپ 29 کانفرنس میں شرکت کیلئے باکو جائیں گے۔وزیراعظم عرب اسلامک سربراہی اجلاس سے خطاب کریں گے. ان کی سمٹ کی سائیڈ لائینز پر عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی متوقع ہیں۔ وفاقی وزیر عطا تارڑ اور معاون خصوصی طارق فاطمی بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہیں۔یہ غیر معمولی سربراہی اجلاس سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے بلایا گیا ہے. جس میں غزہ اور فلسطین سمیت مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ اجلاس میں عرب لیگ اوراوآئی سی کے رکن ممالک کے سربراہان مملکت شرکت کررہے ہیں۔اسرائیلی جارحیت کے تسلسل اور فلسطین و لبنان میں معصوم شہریوں کی جانوں پر منڈلاتے خطرات کے پیش نظر عرب اور اسلامی ممالک کے قائدین نے کل 11 نومبر 2024 کو سعودی عرب میں ایک غیرمعمولی عرب اسلامی سربراہی اجلاس طلب کیا ہے۔یہ اجلاس خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں منعقد ہورہا ہے. جس کا مقصد خطے میں امن و استحکام کی بحالی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف مؤثر اقدام کرنا ہے۔یہ اجلاس ایسے وقت میں ہورہا ہے جب فلسطینی علاقے خاص طور پر غزہ اور لبنان اسرائیلی حملوں کی زد میں ہیں۔ ان حملوں میں نہ صرف معصوم شہریوں بلکہ بنیادی ڈھانچے، اسپتالوں اور عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فلسطینی عوام پر جاری مظالم اور لبنانی سرحدی علاقوں پر حملوں کے باعث خطے میں ایک انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔سعودی عرب نے ہمیشہ امتِ مسلمہ کی رہنمائی کرتے ہوئے فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے۔ شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میںسعودی عرب نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔یہ اجلاس 2023 میں منعقد ہونے والی عرب اسلامی کانفرنس کا تسلسل ہے، جس میں فلسطینی عوام کے تحفظ اور ان کے حقوق کی بحالی کے لیے عملی اقدامات پر زور دیا گیا تھا۔کل ہونے والے اہم اجلاس میں جو فیصلے متوقع ہیں وہ قارئین کے سامنے پیش کیے جارہے ہیں۔اجلاس میں فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کی سخت مذمت کی جائے گی اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا جائے گا۔اجلاس میں غزہ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں انسانی امداد کی بحالی اور محاصرے کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات پر غور ہوگا۔عالمی برادری خاص طور پر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے مستقل ارکان پر زور دیا جائے گا کہ وہ اسرائیلی مظالم کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔اجلاس میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے کوششوں کو تیز کرنے اور فلسطینی عوام کو ان کی اپنی آزاد ریاست کے قیام کے حق کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے پر زور دیا جائے گا۔اجلاس میں کئی اہم فیصلے متوقع ہیں جن میں اسرائیل پر اقتصادی پابندیوں کی تجویز، فلسطینیوں کی امداد کے لیے خصوصی فنڈز کے قیام اور اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کے حصول کی کوشش شامل ہو سکتی ہیں۔یہ اجلاس خطے میں امن و استحکام کے لیے عرب اور اسلامی ممالک کے اتحاد کی علامت ہے۔ اجلاس کے شرکا سے توقع ہے کہ وہ ایک متحدہ موقف اپناتے ہوئے اسرائیل پر دباؤ ڈالیں گے تاکہ نہ صرف فلسطین بلکہ لبنان کے عوام کو بھی جارحیت سے بچایا جا سکے۔عرب اسلامی سربراہی اجلاس ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے .جس میں عرب اور اسلامی ممالک کی قیادت اپنے اتحاد اور مشترکہ موقف کے ذریعے فلسطین و لبنان کے مظلوم عوام کے لیے عالمی ضمیر کو جگانے کی کوشش کرے گی۔ اس اجلاس کے نتائج سے یہ ظاہر ہوگا کہ عالمی برادری مشرقِ وسطیٰ میں امن و استحکام کے قیام کے لیے کتنی سنجیدہ ہے۔