کیری لوگر بل پارلیمنٹ نے مسترد کردیا تو یہ شرم کی بات ہوگی‘ سمجھائیں گے کہ ایسا نہ کرے : امریکی سفیر

اسلام آباد (ریڈیو مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے کہا ہے کہ اگر کیری لوگر بل پاکستانی پارلیمنٹ سے منظور نہ ہوا تو یہ ہم سب کے لئے شرم کی بات ہو گی۔ سینیٹر کیری اور نائب صدر جو بائیڈن جیسے لوگ جنہوں نے پاکستان کے لئے بہت محنت کی وہ اسے اپنی بے عزتی سمجھیں گے‘ وہ نہیں سمجھتیں کہ پارلیمنٹ نے یہ بل مسترد کر دیا تو اس سے زرداری حکومت کمزور ہو جائے گی۔ یہ پارلیمنٹ کا استحقاق ہے تاہم ہم لوگوں کو قائل کرنے کی ضرو کوشش کریں گے کہ وہ ایسا نہ کریں۔ ہم قومی اسمبلی کے ارکان سے اکثر بات کرتے رہتے ہیں اور انہیں یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ بل ویسا نہیں جیسے وہ سمجھ رہے ہیں۔ نجی ٹی وی سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ بل نامنظور ہونے کی صورت میں مجھے پتہ نہیں کہ کیا ہوگا‘ اندازہ بھی نہیں لگانا چاہتی تاہم امید ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ ملکی صورتحال سامنے رکھے گی‘ بل منظور نہ ہوا تو اس سے دونوں ممالک کی دوستی متاثر ہو گی۔ اس بل کے محرک سینیٹر جان کیری اور نائب صدر جو بائیڈن سے بہتر پاکستان کا کوئی دوست نہیں ہو سکتا‘ انہوں نے اس بل کو پاکستان کے لوگوں کے ساتھ طویل المدتی تعلق کے طور پر سوچا تھا۔ بل کی مدت ختم ہونے پر اس کا دورانیہ مزید پانچ سال تک بڑھایا جا سکتا ہے‘ اس طرح یہ رقم 15 ارب ڈالر ہو جائے گی جو صحت‘ تعلیم‘ نظام حکومت‘ زراعت اور دیگر فلاحی اور ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوں گے‘ ہمیں معلوم ہے کہ اس بل کے بارے میں حقیقی خدشات پائے جاتے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے جب ہم بیٹھ کر اس پر بات کریں گے تو ان خدشات کو دور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہم پاکستانی فوج سے بات کرتے رہے ہیں‘ پاکستانی فوج کے ساتھ ہمارے بہترین مراسم ہیں‘ ان کے خدشات کی وجہ سے ہی ہم پریشان ہیں کیونکہ ہم انہیں بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ فوج کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں‘ فوج کے سربراہوں سے ملاقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم ان سے ملتے رہے ہیں اور اب پھر ملیں گے۔ ایسا کبھی کوئی دن نہیں گزرا جب امریکی سفارت خانے سے کوئی نہ کوئی اہلکار فوج سے نہ ملا ہو۔ ابھی تک ہم نے اس بل پر سیر حاصل گفتگو نہیں کی‘ ہم نے ان شقوں کو اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی جو حقیقی معنوں میں پاکستان کے عوام کے لئے بہت مفید ہیں‘ یہ قلیل مدتی مسائل ہیں امریکہ اس بل کے ذریعہ پاکستانی عوام کے ساتھ دیرپا تعلق قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ سینیٹر جان کیری اگلے ہفتہ پاکستان آ رہے ہیں وہ سیاستدانوں‘ فوج اور دوسرے لوگوں سے ملیں گے۔ بل میں شامل شق 203 کے بارے میں ایک سوال پر امریکی سفیر نے کہا کہ امریکی فوج پاکستانی افواج کے کردار کی بہت تعریف کرتی ہے۔ بل میں شق شامل کئے جانے کا کوئی خفیہ مطلب نہیں ہے۔ یہ صرف پیسوں کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دیرپا رشتے کی بات ہے۔ ہم پاکستان کے عوام کے ساتھ وسیع اور جامع حکمت عملی پر مشتمل تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں‘ ایسی سوچ قطعاً نہیں پائی جاتی کہ پاکستانی فوج دہشت گردوں کی مدد کر رہی ہے‘ بعض اوقات بحث کے دوران آخری وقت کئی ایسی چیزیں شامل کر لی جاتی ہیں جو نہ ہوں تو بہتر ہے‘ ہم فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں سے اکثر بات کرتے رہتے ہیں‘ حال ہی میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا واشنگٹن میں تھے‘ جن لوگوں نے اس بل کے حق میں ووٹ دیا ان میں سے بہت کم لوگوں نے اسے پڑھ رکھا تھا۔ ہمارے سینٹ اور کانگرس کے ارکان اس بل پر پاکستان میں ہونے والے ردعمل پر بہت حیران ہوں گے۔ امریکی انتظامیہ اور قانون ساز اداروں میں بہت سے لوگ اس بل کو قابل ذکر فتح قرار دیتے ہیں۔ میں نے یہ پورا بل اچھی طرح پڑھ رکھا ہے‘ آئیے اس بات سے آگے بڑھیں اور مکمل صورتحال پر توجہ دیں۔ ہم سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھیں گے‘ انہیں مکمل صورتحال سے آگاہ کریں گے‘ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ شاید یہ غلطی تھی جو بعض شقیں شامل کی گئیں‘ ہماری افواج میں بھی لوگ اسے غلطی ہی سمجھیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ اس بل کو تیار کرنے والوں کے ذہن میں وہ تشویش ہو جس کا اظہار ہماری مشرف حکومت کی ح مایت کی وجہ سے کیا جاتا رہا ہے‘ وہ بالواسطہ طور پر افواج پر سول کنٹرول پر زور دینے کی کوشش کر رہے تھے جو ہمارے خیال میں بہت اہم ہے۔ میں سمجھ سکتی ہوں کہ لوگ اس بات پر کیوں ناراض ہیں‘ ہماری نیت صاف تھی لیکن اسے لکھتے ہوئے مناسب الفاظ استعمال نہیں ہوئے‘ وہ نہیں سمجھتی کہ یہ فوج کو سیاسی رنگ دے گا جس طریقے سے فوج نے اس معاملے کو سنبھالا ہے میں اس سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔ کل ہونے والا واقعہ فوج پر سول کنٹرول کی بہترین مثال ہے‘ آپ نے ازخود فیصلہ کیا ہے کہ فوج کو سول کنٹرول میں ہونا چاہئے‘ یہ بل بہت پہلے بنایا گیا تھا اس وقت سول سوسائٹی فوجی حکومت کے لئے امریکی حمایت پر تشویش کا اظہار کر رہی تھی‘ بل کا پہلا مسودہ اسی تشویش کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ یہ بل کیا ہے یہ امریکہ پاکستان دوستی کا مظہر اور دیر پا تعلق کا مظہر ہے‘ پاکستانیوں کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو خیال رکھنا چاہئے کہ ہم سب کے حق میں بہتر کیا اور امریکہ اور پاکستان کے درمیان مضبوط رشتہ کیسے استوار ہو۔ انہوں نے کہا تاہم بل منظور نہ ہونے کے باوجود بھی پاکستان کو امداد مل سکتی ہے کیونکہ کیری لوگر کے علاوہ بھی پاکستان کو امریکی امداد ملتی ہے‘ ایک ارب ڈالر کی رقم کا حامل ایک اور اکاؤنٹ ہے جو پاکستانی فوج کے لئے ہے اور یہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ بھارت کے ساتھ ایٹمی تعاون کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمیں اس چیز کو کسی تعصب کے بغیر دیکھنا چاہئے‘ پاکستان بھی اسی طرح کا سول نیوکلیئر معاہدہ امریکہ کے ساتھ کر سکتا ہے‘ تاہم ماضی میں ڈاکٹر قدیر نے جو کچھ کیا وہ بڑا مسئلہ ہے‘ وقت گذرنے کے ساتھ حالات بہتر ہو جائیں گے لیکن اس وقت ایسا کرنا مشکل ہو گا‘ امریکہ ڈاکٹر قدیر کو نیوکلیئر ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا ذمہ دار سمجھتا ہے‘ وہ یہ کام پاکستانی مؤقف کے مطابق اپنی ذاتی حیثیت میں کر رہے تھے‘ طالبان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ طالبان بلاشبہ کوئٹہ‘ لاہور اور جنوبی وزیرستان میں ہیں۔ دریں اثناء امریکی حکام نے کہا ہے کہ کیری لوگر بل کے تحت امریکہ کو پاکستانی فوج میں ترقیوں پر نگرانی درکار نہیں‘ امریکی سینٹ کے سینئر اہلکار نے کہا ہے کہ کیری لوگر بل سے ڈروں حملوں میں توسیع کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا‘ بل کے تحت فوج کے دیگر داخلی آپریشنز پر بھی نگرانی درکار نہیں۔

ای پیپر دی نیشن