امن کی آشا؟

Oct 10, 2010

سفیر یاؤ جنگ
مکرمی! پاکستان کی اساس اسلام ہے اور اس کے حصول کا مقصد بھی یہی تھا کہ لوگ اپنی زندگیوں کو آزادانہ ایسی روایات اور عقائد کے مطابق ڈھالیں جنکی بنیاد اسلام ہو اور تحریک آزادی کو شروع کرنے کی وجہ ہندوئوں اور مسلمانوں کی ثقافت، روایات، مذہب، زبان اور رہن سہن کا واضح فرق تھا لیکن اگر آجکل دیکھا جائے تو جو تکلیف دہ حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کا ایک قابلِ ذکر طبقہ بھارت کی ثقافتی یلغار کے آگے بے بس و مجبور نظر آتا ہے۔ جسکی ایک بڑی مثال ایک پاکستانی نجی ٹی چینل پر پیش کیا جانے والا پروگرام ’’چھوٹے استاد‘‘ ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک مقابلۂ موسیقی ہے۔ جس کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دونوں ممالک قیامِ امن کیلئے اور اپنے تعلقات کی بہتری کیلئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں لیکن دراصل اس پروگرام کے ذریعے نئی نسل کو راہِ راست سے ہٹا کر ہندوئوں کی فکری غلامی قبول کرنے کی طرف مائل کرنے کی سازش کی جارہی ہے اور تقسیمِ ہند کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور نئی نسل نہ صرف زبان اور ثقافتی بلکہ مذہبی طور پر بھی اِنکے رنگ میں ڈھل رہی ہے۔ اس پروگرام میں بچے ججوں کو سجدہ کرتے، ہندوئوں کے مذہبی تہوار مناتے، مذہبی گیت گاتے اور اِنکی زبان بولتے بھی دِکھائے جاتے ہیں۔ اور اِن سب میں نہ صرف بچے بلکہ اُن کے والدین بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔ یہ جاننے کے باوجود بھی کہ یہی وہ ہندو تھے۔ جنہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا کہ یہ ملک وجود میں نہ آئے اور اب تک ذہنی طور پر اس ملک کو قبول نہیں کیا۔ اب تک ان کا ہاتھ پاکستان کی شہ رگ (مقبوضہ کشمیر) پر ہے۔ جس سے وہ کسی صورت دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ پھر کیسے ہم اُن سے بھلائی کی توقع کر سکتے ہیں۔’’امن کی آشا‘‘ کا نعرہ لگانے والے اس تحریک کی آڑ میں نئی نسل کو ہندووانہ رسوم و رواج کو غلام بنا رہے ہیں اور اپنے آبائو اجداد کی قدروں کو پامال کر رہے ہیں اور پاکستان اور اسکی نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ اس کا پورا مستقبل دائو پر لگا رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ نئی پود دو تہذیبوں کے درمیان چکی کے دو پاٹوں کی طرح پِس کے رہ جائے اور اُن کا تشخص اُن کیلئے سوالیہ نشان بن جائے۔
(سیدہ بینش بخاری …طالبہ ایم اے ماس کمیونیکیشن فاطمہ جناح کالج لاہور)
مزیدخبریں