وفاقی حکومت نے پنجاب اسمبلی کی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے مفاہمت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالاباغ ڈیم ایک متنازعہ ایشو ہے‘ تین صوبے اسکے خلاف قراردادیں منظور کر چکے ہیں‘ اسکی تعمیر سے صوبوں کے درمیان نفرت پیدا ہو گی۔ گزشتہ روز بشریٰ رحمٰن کے سوال پر وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ 9 نو سال یہاں فوجی حکمران رہے‘ اس وقت کالاباغ ڈیم کیوں تعمیر نہیں کیا گیا؟ ہم چاروں صوبوں میں مفاہمت چاہتے ہیں‘ نفرت پیدا نہیں کرنا چاہتے‘ ہم کالاباغ ڈیم تعمیر نہیں کرینگے۔
کالاباغ ڈیم قومی مفاد کا بہترین منصوبہ ہے‘ جسے بدقسمتی سے سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ آج بجلی کی کمی کے باعث سینکڑوں بڑے صنعتی ادارے اور ایک لاکھ سے زائد کاٹیج یونٹ بند ہو چکے ہیں۔ چھوٹے موٹے کارروبار بھی زوال پذیر ہیں‘ ملک میں بیروزگاری کا دور دورہ ہے‘ مجموعی طور پر قومی معیشت کو دہشت گردی کی جنگ کیساتھ ساتھ روزانہ 10 سے 12 اور 18 گھنٹے تک بجلی کی بندش نے بھی شدید دھچکا لگایا ہے۔ ملکی زراعت کا مکمل انحصار نہری نظام پر ہے‘ کچھ نہریں سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کے ہاتھ دریائے راوی‘ ستلج اور بیاس فروخت کرنے سے خشک ہوئیں‘ بہت سی نہریں بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے پاکستان آنیوالے دریائوں کا پانی کنٹرول کرکے خشک کر دیں۔ بھارت نے پاکستان کو کبھی تسلیم کیا‘ نہ برداشت‘ وہ پاکستان کو تباہی سے دوچار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ایک طرف وہ پاکستان کے حصے کا پانی روک کر جب چاہتا ہے‘ پاکستان کی لہلہاتی فصلوں کو برباد کرکے رکھ دیتا ہے اور اگر اسکے دریائوں میں پانی زیادہ آجائے تو اس کا رخ پاکستان کی طرف موڑ کر اسے ڈبونے کی کوشش کرتا ہے‘ جیسا کہ اس نے حالیہ بدترین سیلاب برپا کرکے وطن عزیز کا ایک چوتھائی علاقہ ڈبو دیا۔
آج پاکستان کو چار ہزار میگاواٹ تک بجلی کے شارٹ فال کا سامنا ہے‘ اس میں موسم اور حکمرانوں کی نیت میں تبدیلی کیساتھ ساتھ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی‘ اس کا مطلب ہے اگر کالاباغ ڈیم تعمیر ہو چکا ہوتا تو آج بجلی کی کمی ہوتی‘ نہ لوڈشیڈنگ اور نہ ہی لوگ کاروبار کی تباہی اور بیروزگاری کے عذاب میں مبتلا ہوتے۔ ماہرین کیمطابق حالیہ سیلاب کے پانی کو کالاباغ ڈیم سمیٹ سکتا تھا‘ جسے ضرورت کے مطابق استعمال میں لایا جاتا۔ کالاباغ ڈیم سے بیک وقت بجلی اور پانی کی کمی پر قابو پایا جا سکتا ہے اور وافر پانی کی صورت میں اسے سنبھالا جاسکتا ہے۔ موجودہ سیلاب نے کالاباغ ڈیم کی افادیت مزید واضح کر دی ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی‘ گورنر پنجاب‘ سلمان تاثیر نے تو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی کھل کر نہ صرف حمایت کی بلکہ وکالت بھی کر رہے ہیں۔
ضروری نہیں کہ کالاباغ ڈیم آمرانہ ادوار میں ہی تعمیر ہوتا‘ اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کے ساتھ ہی اسکی تعمیر شروع ہو جانی چاہیے تھی‘ جنرل ایوب خان کو ماہرین نے پہلے اسی ڈیم کے شروع کرنے کی تجویز دی تھی‘ انہوں نے محض نوابزادہ فرید خان کی ریاست ’’امب‘‘ ڈبونے کیلئے تربیلا ڈیم کی تعمیر شروع کرادی‘ اسکے بعد کالاباغ ڈیم ہر گزرتے دن کے ساتھ متنازعہ ہوتا گیا۔ چارسدہ کے جنرل فضل حق نے انتہائی صوبائی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخالفت اس لئے کی کہ یہ پنجاب میں تعمیر ہونا تھا۔ پھر باچا خان کی اولاد اور اسکے پیروکاروں نے قومی مفاد کے منصوبے کیخلاف محاذ کھڑا کردیا۔ تعمیر ہونے کی صورت میں بم سے اڑا دینے کی دھمکی دی۔ کہا گیا کہ نوشہرہ ڈوب جائیگا‘ نوشہرہ سے ہی تعلق رکھنے والے سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک کئی بار چیلنج دے چکے ہیں کہ مخالفین انکے ساتھ مناظرہ کرلیں‘ نوشہرہ کو ڈیم کی تعمیر سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ نوشہرہ کیا سیلاب سے چارسدہ بھی ڈوب گیا۔ سیلاب نے پورے صوبے کو ہلا کے رکھ دیا۔ اسکے باوجود اے این پی کی قیادت کی سوئی میں نہ مانوں پر اٹکی ہوئی ہے۔ زرداری حکومت بھی اسکی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے۔ اس لئے کہ پیپلز پارٹی نے اے این پی کو ساتھ ملانے کیلئے اسے کالاباغ ڈیم منصوبے کو منسوخ کرنے کی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔
قومی و ملکی مفاد کے کسی بھی منصوبے کیلئے اتفاق رائے پہلی کڑی ضرور ہے‘ لیکن یہ ناگزیر نہیں اگر ایسا ہوتا تو قائداعظمؒ پوری زندگی اتفاق رائے پر گزار دیتے‘ سرخ پوش تو پاکستان کیساتھ ملنے پر تیار نہیں تھے۔ بانیان پاکستان انکے خبث باطن سے آگاہ تھے اس لئے تحریک قیام پاکستان کی چلتی ٹرین کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی بھی ہیں‘ وہ بھی اتفاق رائے کے چکروں میں پڑ جاتے تو کہاں ہوتا ایٹمی پروگرام اور کیونکر بنتا پاکستان ایٹمی قوت! راجہ پرویز اشرف بتائیں انہوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر اتفاق رائے کرنے کیلئے کیا کوشش کی ہے؟ کتنے اجلاس بلائے ہیں؟ جب کبھی کمیشن کی کان رینٹل پاور پلانٹس کی سوداگری سے فرصت ملتی ہے۔ کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں بڑھ بڑھ کر بیان داغنے اور اتفاق رائے کا راگ الاپنے کے بعد کر پھر اپنے ’’کام‘‘ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
آج ملک پانی اور بجلی کی شدید کمی سے ہمکنار ہے‘ راجہ صاحب دونوں وزارتوں کے انچارج ہیں‘ جب سے وزیر بنے ہیں‘ دونوں شعبے انحطاط پذیر ہیں۔ وجہ عوامی مسائل پر پوری توجہ کے بجائے کسی اور طرف ہے۔ گزشتہ روز سابق وزیر داخلہ فیصل صالح حیات نے سپریم کورٹ میں کہا کہ رینٹل پاور پراجیکٹس میں 400 بلین ڈالر کے کک بیکس شامل ہیں۔ راجہ پرویز اشرف نے لندن میں 4.3 ملین پائونڈز کا گھر خریدا ہے‘ پانی و بجلی کے وزیر نے فیصل صالح کے الزامات کا جواب دیا‘ نہ تردید کی۔ منظوری کے وقت یہ 1500 میگاواٹ پیداوار کا منصوبہ تھا‘ اب یہ 750 میگاواٹ میں کیونکر بدل گیا؟ ماہرین رینٹل پاور منصوبے کا ریکارڈ مانگ رہے ہیں‘ حکومت اس طرف نہیں آرہی‘ بالآخر سپریم کورٹ کو ریکارڈ طلب کرنا پڑا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین سر پھٹول میں بھی وزیر بجلی و پانی کا ہاتھ ہے۔ نواز شریف کیخلاف پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے پریس کانفرنس بھی راجہ صاحب نے کی تھی۔ جہانگیر بدر کہتے ہیں وہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں‘ جو شخص ایک وزارت نہیں چلا سکتا‘ اپنی ناکام اور ذاتی مفادات پر مبنی پالیسیوں کے باعث ملک کو اندھیروں میں دھکیل رہا ہے‘ ایسے فتنہ پرور اور نااہل کو تو مستعفی ہو جانا چاہیے اگر استعفیٰ نہیں دیتا تو اپوزیشن سب کچھ ہوتے دیکھتے ہوئے کیوں خاموش ہے؟
ماہرین کیمطابق کالاباغ ڈیم 80ء کی دہائی میں تعمیر ہو چکا ہوتا تو اس پر 2.65 بلین ڈالر لاگت آتی‘ آج بنایا جائے تو 8 بلین ڈالر صرف ہونگے‘ مزید تاخیر کی گئی تو اخراجات میں مزید اضافہ ہوجائیگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کالاباغ ڈیم کی فوری تعمیر شروع کردی جائے۔ نوائے وقت کے ریفرنڈم میں پورے ملک سے 99 فیصد عوام نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں رائے دی‘ اے این پی کے مٹھی بھر مخالفین کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کی جائے۔ اگر وہ راہ راست پر نہیں آتے تو انکی پرواہ نہ کی جائے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے چیف ایڈیٹر خبریں ضیاء شاہد کی کاوش قابل تحسین ہے‘ انہوں نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی ہے کہ وہ حکومت کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا حکم دے۔ کالاباغ ڈیم کی فزیبلٹی تیار ہے‘ بنیادی کاموں پر چھ ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں‘ اسکی تعمیر آج شروع ہو تو تین چار سال میں ڈیم اپریشنل ہو جائیگا۔ اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے‘ تو امید رکھنی چاہیے کہ فیصلہ قوم کے بہترین مفاد میں اور جلد ہو گا۔
حکومت چیئرمین نیب کی تقرری پر اتفاق رائے پیدا کرے
سندھ اسمبلی کے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق رکن اور سپریم کورٹ کے سابق جج دیدار حسین شاہ کو چیئرمین نیب مقرر کردیا گیا‘ قائد حزب اختلاف جن سے چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے مشاورت ضروری ہے‘ وہ اس نام کو مسترد کر چکے ہیں۔
چیئرمین نیب کا عہدہ اس وقت ملکی سیاست میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت اختیار کر چکا ہے‘ سپریم کورٹ اور حکومت کے مابین این آر او اور سوئس حکومت کو خط لکھنے کا معاملہ شدت اختیار کر چکا ہے لیکن حکومت آئے روز مزید محاذ آرائی کی جانب بڑھ رہی ہے‘ اب پیپلز پارٹی کے جیالے دیدار حسین کو چیئرمین نیب مقرر کرکے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں میں نے قائد حزب اختلاف سے مشاورت کی تھی‘ جبکہ چودھری نثار کہتے ہیں‘ میں نے اس نام کو مسترد کردیا تھا۔ یہ مشاورت تو پھر جناب ویسی ہی ہوئی جیسی پرویز مشرف نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی تقرری کے وقت وزیراعظم سے کی تھی۔ جسٹس وجیہہ الدین کیمطابق دیدار حسین پی پی کے وفادار جیالے‘ بھٹو خاندان کے دوست‘ متنازعہ جج اور خراب کارکردگی کے حامل شخص ہیں‘ وہ بھلا سوئس حکومت کو زرداری صاحب کیخلاف کیسے خط لکھ سکیں گے؟ 18ویں ترمیم کے تحت نیب چیئرمین کی تقرری کیلئے صدر‘ وزیراعظم‘ اپوزیشن لیڈر اور چیف جسٹس پاکستان سے مشاورت ضروری ہے‘ لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا‘ شاید حکومتی ماہرین نے مشورہ دیا ہو کہ سپریم کورٹ سے بار بار وقت لے رہے ہیں کیوں نہ ایسے شخص کو چیئرمین مقرر کیا جائے جس کی تقرری عدالت میں چیلنج ہو۔ جس سے حکومت کو این آر او فیصلے پر عملدرآمد کیلئے کچھ اور وقت مل جائیگا۔ وزیراعظم نے سینٹ میں خود وعدہ کیا تھا کہ نئے چیئرمین کو صلاح مشورے اور مکمل اتفاق رائے سے مقرر کیا جائیگا۔ شاید زرداری کیمپ کی آواز سیدزادے کے کانوں میں پہنچ گئی ہو کہ وعدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔ لیکن گیلانی صاحب کو اپنی نسبت کا تو خیال رکھنا چاہیے تھا۔ جسٹس (ر) دیدار حسین کے چیئرمین قومی احتساب بیورو مقرر ہونے سے مزید بحران جنم لے گا حکومت کی اتحادی اے این پی اور ایم کیو ایم نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بیرسٹر اقبال جعفری نے اس تقرری کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج بھی کر دیا ہے‘ حکومت کیلئے یہ تقرری نیک شگون نہیں ہے‘ اس کو چاہیے کہ غیرجانبدار شخص کو الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کو پیش نظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس اور قائد حزب اختلاف سے مکمل مشاورت کرکے مقرر کیا جائے‘ حکومت کیلئے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنے لئے مزید مشکلات پیدا کرنے سے اجتناب کرے جو ملک و قوم کیلئے بہتر نہیں ہے۔
پیرپگاڑا کا مستحسن فیصلہ
پیرپگاڑا نے کہا ہے کہ اگلے ہفتے لیگی دھڑوں کے اتحاد کیلئے نواز شریف کے پاس خود جاؤنگا کوئی ہمارے ساتھ آتا ہے یا نہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا میری پہلی ترجیح مسلم لیگ کو منظم کرنا ہے‘ جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز اور بڑھتے ہوئے سیاسی مسائل پر قابو پانے اور جمہوریت کے استحکام کیلئے مسلم لیگ کا اتحاد بہت ضروری ہے۔ مضبوط مسلم لیگ مستحکم پاکستان اور فروغ نظریہ پاکستان کی اساس ہے۔ بے چینی‘ مایوسی اور بے یقینی کے ہر سو چھائے ہوئے بادلوں سے عوام کو نکالنے مسلم لیگی زعما کو اپنی اپنی انا اور ذاتیات کو دفن کرکے متحدہ مسلم لیگ کی چھتری تلے جمع ہو جانا چاہئے۔
بزرگ اور پیر پگاڑا کا یہ قوم پر احسان ہو گا‘ میاں نواز شریف کو بھی اس پر لبیک کہنا چاہئے کیونکہ ملکی سیاسی اقتصادی اور داخلی حالات گھمبیر صورتحال اختیار کر چکے ہیں‘ اس کیلئے محب وطن قیادت کی اشد ضرورت ہے۔ جو ہر پاکستانی کی دلی آواز ہے۔ جب ملک میں چھوٹے چھوٹے سیاسی گروپوں کی بجائے اگر دو جماعتی سسٹم ہو گا تو جمہوریت مضبوط ہو گی کرپشن‘ لوٹ مار کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی اور فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے بھی سننے نہیں پڑینگے۔ یہ اسی صورت ہی ممکن ہے کہ پہلے تمام کی تمام مسلم لیگیں متحد ہو جائیں‘ مسلم لیگ رہنما مل بیٹھ کر گلے شکوے دور کریں اور قائد کے پاکستان کو مضبوط بنانے کیلئے متحدہ مسلم لیگ کی بنیاد رکھیں‘ قائد کا پاکستان میاں نواز شریف کی طرف دیکھ رہا ہے‘ میاں صاحب ہاتھ بڑھائیں۔
مظفر آباد کے زلزلہ متاثرین کی محرومیاں
خبر ہے کہ زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو نہ ہونے پرمظفر آباد میں شٹرڈائون کیا گیا، پارلیمنٹ ہائوس کے باہر ہزاروںافراد نے احتجاج کیا۔
2005ء میں وہ خوفناک زلزلہ آیا جس کے متاثرین آج پانچ برس گزرنے کے باوجود بھی اسی طرح متاثرین ہیں جیسے زلزلہ ا بھی کل آیا ہو‘ یہ درست ہے کہ اس سانحے کی تلافی کیلئے کام بھی کیا گیا مگر حکومت کی جانب سے باقاعدہ منصوبہ بندی کیساتھ ایسا عمل منظرِ عام پر دیکھنے کو نہیں ملا جسکے نتیجے میں آج متاثرین زلزلہ یوں واویلا نہ کرتے، پاکستان کے عوام مختلف مذہبی و غیر مذہبی تنظیموں نے جان پر کھیل کر زلزلہ زدگان کیلئے بہت کچھ کیا، مگر ظاہر ہے وہ بے گھروں کو گھر اور تباہ حالوں کو خوشحال تو نہیں بناسکتے تھے کیونکہ یہ کام حکومت کے کرنے کا تھا اور حکومت نے بھی سرسری کام کرکے 2005 متاثرین کیساتھ ایسا سلوک کیا کہ گویا زلزلہ اب بھی برپا ہے مظفر آباد بہت زیادہ متاثر ہوا تھا جہاں متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو حکومت کی ذمہ داری تھی مگر پارلیمنٹ کا گھیرائو اور شٹر ڈائون یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ مظفر آباد کے متاثرین کیلئے کچھ بھی ٹھوس کام نہیں کیا گیا حکومت پاکستان کو چاہئے کہ اس سلسلے کو محض ایک مظاہرہ اور احتجاج نہ سمجھے، احتجاج کرنیوالوں کو مطمئن کرے اور اس طرح سے اطمینان دلائے کہ متاثرین کو تسلی ہوجائے کہ واقعی حکومت نے اُنکے احتجاج کا عملی نوٹس لیاہے۔
کالاباغ ڈیم قومی مفاد کا بہترین منصوبہ ہے‘ جسے بدقسمتی سے سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ آج بجلی کی کمی کے باعث سینکڑوں بڑے صنعتی ادارے اور ایک لاکھ سے زائد کاٹیج یونٹ بند ہو چکے ہیں۔ چھوٹے موٹے کارروبار بھی زوال پذیر ہیں‘ ملک میں بیروزگاری کا دور دورہ ہے‘ مجموعی طور پر قومی معیشت کو دہشت گردی کی جنگ کیساتھ ساتھ روزانہ 10 سے 12 اور 18 گھنٹے تک بجلی کی بندش نے بھی شدید دھچکا لگایا ہے۔ ملکی زراعت کا مکمل انحصار نہری نظام پر ہے‘ کچھ نہریں سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کے ہاتھ دریائے راوی‘ ستلج اور بیاس فروخت کرنے سے خشک ہوئیں‘ بہت سی نہریں بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے پاکستان آنیوالے دریائوں کا پانی کنٹرول کرکے خشک کر دیں۔ بھارت نے پاکستان کو کبھی تسلیم کیا‘ نہ برداشت‘ وہ پاکستان کو تباہی سے دوچار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ایک طرف وہ پاکستان کے حصے کا پانی روک کر جب چاہتا ہے‘ پاکستان کی لہلہاتی فصلوں کو برباد کرکے رکھ دیتا ہے اور اگر اسکے دریائوں میں پانی زیادہ آجائے تو اس کا رخ پاکستان کی طرف موڑ کر اسے ڈبونے کی کوشش کرتا ہے‘ جیسا کہ اس نے حالیہ بدترین سیلاب برپا کرکے وطن عزیز کا ایک چوتھائی علاقہ ڈبو دیا۔
آج پاکستان کو چار ہزار میگاواٹ تک بجلی کے شارٹ فال کا سامنا ہے‘ اس میں موسم اور حکمرانوں کی نیت میں تبدیلی کیساتھ ساتھ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی‘ اس کا مطلب ہے اگر کالاباغ ڈیم تعمیر ہو چکا ہوتا تو آج بجلی کی کمی ہوتی‘ نہ لوڈشیڈنگ اور نہ ہی لوگ کاروبار کی تباہی اور بیروزگاری کے عذاب میں مبتلا ہوتے۔ ماہرین کیمطابق حالیہ سیلاب کے پانی کو کالاباغ ڈیم سمیٹ سکتا تھا‘ جسے ضرورت کے مطابق استعمال میں لایا جاتا۔ کالاباغ ڈیم سے بیک وقت بجلی اور پانی کی کمی پر قابو پایا جا سکتا ہے اور وافر پانی کی صورت میں اسے سنبھالا جاسکتا ہے۔ موجودہ سیلاب نے کالاباغ ڈیم کی افادیت مزید واضح کر دی ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی‘ گورنر پنجاب‘ سلمان تاثیر نے تو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی کھل کر نہ صرف حمایت کی بلکہ وکالت بھی کر رہے ہیں۔
ضروری نہیں کہ کالاباغ ڈیم آمرانہ ادوار میں ہی تعمیر ہوتا‘ اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کے ساتھ ہی اسکی تعمیر شروع ہو جانی چاہیے تھی‘ جنرل ایوب خان کو ماہرین نے پہلے اسی ڈیم کے شروع کرنے کی تجویز دی تھی‘ انہوں نے محض نوابزادہ فرید خان کی ریاست ’’امب‘‘ ڈبونے کیلئے تربیلا ڈیم کی تعمیر شروع کرادی‘ اسکے بعد کالاباغ ڈیم ہر گزرتے دن کے ساتھ متنازعہ ہوتا گیا۔ چارسدہ کے جنرل فضل حق نے انتہائی صوبائی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخالفت اس لئے کی کہ یہ پنجاب میں تعمیر ہونا تھا۔ پھر باچا خان کی اولاد اور اسکے پیروکاروں نے قومی مفاد کے منصوبے کیخلاف محاذ کھڑا کردیا۔ تعمیر ہونے کی صورت میں بم سے اڑا دینے کی دھمکی دی۔ کہا گیا کہ نوشہرہ ڈوب جائیگا‘ نوشہرہ سے ہی تعلق رکھنے والے سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک کئی بار چیلنج دے چکے ہیں کہ مخالفین انکے ساتھ مناظرہ کرلیں‘ نوشہرہ کو ڈیم کی تعمیر سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ نوشہرہ کیا سیلاب سے چارسدہ بھی ڈوب گیا۔ سیلاب نے پورے صوبے کو ہلا کے رکھ دیا۔ اسکے باوجود اے این پی کی قیادت کی سوئی میں نہ مانوں پر اٹکی ہوئی ہے۔ زرداری حکومت بھی اسکی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے۔ اس لئے کہ پیپلز پارٹی نے اے این پی کو ساتھ ملانے کیلئے اسے کالاباغ ڈیم منصوبے کو منسوخ کرنے کی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔
قومی و ملکی مفاد کے کسی بھی منصوبے کیلئے اتفاق رائے پہلی کڑی ضرور ہے‘ لیکن یہ ناگزیر نہیں اگر ایسا ہوتا تو قائداعظمؒ پوری زندگی اتفاق رائے پر گزار دیتے‘ سرخ پوش تو پاکستان کیساتھ ملنے پر تیار نہیں تھے۔ بانیان پاکستان انکے خبث باطن سے آگاہ تھے اس لئے تحریک قیام پاکستان کی چلتی ٹرین کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی بھی ہیں‘ وہ بھی اتفاق رائے کے چکروں میں پڑ جاتے تو کہاں ہوتا ایٹمی پروگرام اور کیونکر بنتا پاکستان ایٹمی قوت! راجہ پرویز اشرف بتائیں انہوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر اتفاق رائے کرنے کیلئے کیا کوشش کی ہے؟ کتنے اجلاس بلائے ہیں؟ جب کبھی کمیشن کی کان رینٹل پاور پلانٹس کی سوداگری سے فرصت ملتی ہے۔ کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں بڑھ بڑھ کر بیان داغنے اور اتفاق رائے کا راگ الاپنے کے بعد کر پھر اپنے ’’کام‘‘ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
آج ملک پانی اور بجلی کی شدید کمی سے ہمکنار ہے‘ راجہ صاحب دونوں وزارتوں کے انچارج ہیں‘ جب سے وزیر بنے ہیں‘ دونوں شعبے انحطاط پذیر ہیں۔ وجہ عوامی مسائل پر پوری توجہ کے بجائے کسی اور طرف ہے۔ گزشتہ روز سابق وزیر داخلہ فیصل صالح حیات نے سپریم کورٹ میں کہا کہ رینٹل پاور پراجیکٹس میں 400 بلین ڈالر کے کک بیکس شامل ہیں۔ راجہ پرویز اشرف نے لندن میں 4.3 ملین پائونڈز کا گھر خریدا ہے‘ پانی و بجلی کے وزیر نے فیصل صالح کے الزامات کا جواب دیا‘ نہ تردید کی۔ منظوری کے وقت یہ 1500 میگاواٹ پیداوار کا منصوبہ تھا‘ اب یہ 750 میگاواٹ میں کیونکر بدل گیا؟ ماہرین رینٹل پاور منصوبے کا ریکارڈ مانگ رہے ہیں‘ حکومت اس طرف نہیں آرہی‘ بالآخر سپریم کورٹ کو ریکارڈ طلب کرنا پڑا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین سر پھٹول میں بھی وزیر بجلی و پانی کا ہاتھ ہے۔ نواز شریف کیخلاف پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے پریس کانفرنس بھی راجہ صاحب نے کی تھی۔ جہانگیر بدر کہتے ہیں وہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں‘ جو شخص ایک وزارت نہیں چلا سکتا‘ اپنی ناکام اور ذاتی مفادات پر مبنی پالیسیوں کے باعث ملک کو اندھیروں میں دھکیل رہا ہے‘ ایسے فتنہ پرور اور نااہل کو تو مستعفی ہو جانا چاہیے اگر استعفیٰ نہیں دیتا تو اپوزیشن سب کچھ ہوتے دیکھتے ہوئے کیوں خاموش ہے؟
ماہرین کیمطابق کالاباغ ڈیم 80ء کی دہائی میں تعمیر ہو چکا ہوتا تو اس پر 2.65 بلین ڈالر لاگت آتی‘ آج بنایا جائے تو 8 بلین ڈالر صرف ہونگے‘ مزید تاخیر کی گئی تو اخراجات میں مزید اضافہ ہوجائیگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کالاباغ ڈیم کی فوری تعمیر شروع کردی جائے۔ نوائے وقت کے ریفرنڈم میں پورے ملک سے 99 فیصد عوام نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں رائے دی‘ اے این پی کے مٹھی بھر مخالفین کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کی جائے۔ اگر وہ راہ راست پر نہیں آتے تو انکی پرواہ نہ کی جائے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے چیف ایڈیٹر خبریں ضیاء شاہد کی کاوش قابل تحسین ہے‘ انہوں نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی ہے کہ وہ حکومت کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا حکم دے۔ کالاباغ ڈیم کی فزیبلٹی تیار ہے‘ بنیادی کاموں پر چھ ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں‘ اسکی تعمیر آج شروع ہو تو تین چار سال میں ڈیم اپریشنل ہو جائیگا۔ اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے‘ تو امید رکھنی چاہیے کہ فیصلہ قوم کے بہترین مفاد میں اور جلد ہو گا۔
حکومت چیئرمین نیب کی تقرری پر اتفاق رائے پیدا کرے
سندھ اسمبلی کے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق رکن اور سپریم کورٹ کے سابق جج دیدار حسین شاہ کو چیئرمین نیب مقرر کردیا گیا‘ قائد حزب اختلاف جن سے چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے مشاورت ضروری ہے‘ وہ اس نام کو مسترد کر چکے ہیں۔
چیئرمین نیب کا عہدہ اس وقت ملکی سیاست میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت اختیار کر چکا ہے‘ سپریم کورٹ اور حکومت کے مابین این آر او اور سوئس حکومت کو خط لکھنے کا معاملہ شدت اختیار کر چکا ہے لیکن حکومت آئے روز مزید محاذ آرائی کی جانب بڑھ رہی ہے‘ اب پیپلز پارٹی کے جیالے دیدار حسین کو چیئرمین نیب مقرر کرکے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں میں نے قائد حزب اختلاف سے مشاورت کی تھی‘ جبکہ چودھری نثار کہتے ہیں‘ میں نے اس نام کو مسترد کردیا تھا۔ یہ مشاورت تو پھر جناب ویسی ہی ہوئی جیسی پرویز مشرف نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی تقرری کے وقت وزیراعظم سے کی تھی۔ جسٹس وجیہہ الدین کیمطابق دیدار حسین پی پی کے وفادار جیالے‘ بھٹو خاندان کے دوست‘ متنازعہ جج اور خراب کارکردگی کے حامل شخص ہیں‘ وہ بھلا سوئس حکومت کو زرداری صاحب کیخلاف کیسے خط لکھ سکیں گے؟ 18ویں ترمیم کے تحت نیب چیئرمین کی تقرری کیلئے صدر‘ وزیراعظم‘ اپوزیشن لیڈر اور چیف جسٹس پاکستان سے مشاورت ضروری ہے‘ لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا‘ شاید حکومتی ماہرین نے مشورہ دیا ہو کہ سپریم کورٹ سے بار بار وقت لے رہے ہیں کیوں نہ ایسے شخص کو چیئرمین مقرر کیا جائے جس کی تقرری عدالت میں چیلنج ہو۔ جس سے حکومت کو این آر او فیصلے پر عملدرآمد کیلئے کچھ اور وقت مل جائیگا۔ وزیراعظم نے سینٹ میں خود وعدہ کیا تھا کہ نئے چیئرمین کو صلاح مشورے اور مکمل اتفاق رائے سے مقرر کیا جائیگا۔ شاید زرداری کیمپ کی آواز سیدزادے کے کانوں میں پہنچ گئی ہو کہ وعدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔ لیکن گیلانی صاحب کو اپنی نسبت کا تو خیال رکھنا چاہیے تھا۔ جسٹس (ر) دیدار حسین کے چیئرمین قومی احتساب بیورو مقرر ہونے سے مزید بحران جنم لے گا حکومت کی اتحادی اے این پی اور ایم کیو ایم نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بیرسٹر اقبال جعفری نے اس تقرری کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج بھی کر دیا ہے‘ حکومت کیلئے یہ تقرری نیک شگون نہیں ہے‘ اس کو چاہیے کہ غیرجانبدار شخص کو الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کو پیش نظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس اور قائد حزب اختلاف سے مکمل مشاورت کرکے مقرر کیا جائے‘ حکومت کیلئے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنے لئے مزید مشکلات پیدا کرنے سے اجتناب کرے جو ملک و قوم کیلئے بہتر نہیں ہے۔
پیرپگاڑا کا مستحسن فیصلہ
پیرپگاڑا نے کہا ہے کہ اگلے ہفتے لیگی دھڑوں کے اتحاد کیلئے نواز شریف کے پاس خود جاؤنگا کوئی ہمارے ساتھ آتا ہے یا نہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا میری پہلی ترجیح مسلم لیگ کو منظم کرنا ہے‘ جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز اور بڑھتے ہوئے سیاسی مسائل پر قابو پانے اور جمہوریت کے استحکام کیلئے مسلم لیگ کا اتحاد بہت ضروری ہے۔ مضبوط مسلم لیگ مستحکم پاکستان اور فروغ نظریہ پاکستان کی اساس ہے۔ بے چینی‘ مایوسی اور بے یقینی کے ہر سو چھائے ہوئے بادلوں سے عوام کو نکالنے مسلم لیگی زعما کو اپنی اپنی انا اور ذاتیات کو دفن کرکے متحدہ مسلم لیگ کی چھتری تلے جمع ہو جانا چاہئے۔
بزرگ اور پیر پگاڑا کا یہ قوم پر احسان ہو گا‘ میاں نواز شریف کو بھی اس پر لبیک کہنا چاہئے کیونکہ ملکی سیاسی اقتصادی اور داخلی حالات گھمبیر صورتحال اختیار کر چکے ہیں‘ اس کیلئے محب وطن قیادت کی اشد ضرورت ہے۔ جو ہر پاکستانی کی دلی آواز ہے۔ جب ملک میں چھوٹے چھوٹے سیاسی گروپوں کی بجائے اگر دو جماعتی سسٹم ہو گا تو جمہوریت مضبوط ہو گی کرپشن‘ لوٹ مار کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی اور فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے بھی سننے نہیں پڑینگے۔ یہ اسی صورت ہی ممکن ہے کہ پہلے تمام کی تمام مسلم لیگیں متحد ہو جائیں‘ مسلم لیگ رہنما مل بیٹھ کر گلے شکوے دور کریں اور قائد کے پاکستان کو مضبوط بنانے کیلئے متحدہ مسلم لیگ کی بنیاد رکھیں‘ قائد کا پاکستان میاں نواز شریف کی طرف دیکھ رہا ہے‘ میاں صاحب ہاتھ بڑھائیں۔
مظفر آباد کے زلزلہ متاثرین کی محرومیاں
خبر ہے کہ زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو نہ ہونے پرمظفر آباد میں شٹرڈائون کیا گیا، پارلیمنٹ ہائوس کے باہر ہزاروںافراد نے احتجاج کیا۔
2005ء میں وہ خوفناک زلزلہ آیا جس کے متاثرین آج پانچ برس گزرنے کے باوجود بھی اسی طرح متاثرین ہیں جیسے زلزلہ ا بھی کل آیا ہو‘ یہ درست ہے کہ اس سانحے کی تلافی کیلئے کام بھی کیا گیا مگر حکومت کی جانب سے باقاعدہ منصوبہ بندی کیساتھ ایسا عمل منظرِ عام پر دیکھنے کو نہیں ملا جسکے نتیجے میں آج متاثرین زلزلہ یوں واویلا نہ کرتے، پاکستان کے عوام مختلف مذہبی و غیر مذہبی تنظیموں نے جان پر کھیل کر زلزلہ زدگان کیلئے بہت کچھ کیا، مگر ظاہر ہے وہ بے گھروں کو گھر اور تباہ حالوں کو خوشحال تو نہیں بناسکتے تھے کیونکہ یہ کام حکومت کے کرنے کا تھا اور حکومت نے بھی سرسری کام کرکے 2005 متاثرین کیساتھ ایسا سلوک کیا کہ گویا زلزلہ اب بھی برپا ہے مظفر آباد بہت زیادہ متاثر ہوا تھا جہاں متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو حکومت کی ذمہ داری تھی مگر پارلیمنٹ کا گھیرائو اور شٹر ڈائون یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ مظفر آباد کے متاثرین کیلئے کچھ بھی ٹھوس کام نہیں کیا گیا حکومت پاکستان کو چاہئے کہ اس سلسلے کو محض ایک مظاہرہ اور احتجاج نہ سمجھے، احتجاج کرنیوالوں کو مطمئن کرے اور اس طرح سے اطمینان دلائے کہ متاثرین کو تسلی ہوجائے کہ واقعی حکومت نے اُنکے احتجاج کا عملی نوٹس لیاہے۔