امریکی اور یورپی سامراج ہمارے ملک کے غداروں کو پھر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے مذموم مقاصد کو پروان چڑھا سکیں۔ ہمارے ازلی دشمن ہماری ناعاقبت اندیشی سے ہمارے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔
دین اسلام کے یہ نئے ٹھیکے دار صوفی ازم کے مقدس مشن کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرکے مذہب اسلام میں ریفارمز کرنے کے طریقے کو ہوا دے رہے ہیں بھلا ایک کرسچئن مذہب سے تعلق رکھنے والی حکومت جنہوں نے 9/11کے بعد صلیبی جنگ، کروسیڈوار کا اعلان کیا تھا ان کو صوفی ازم سے بھلا کیا رشتہ ؟کیا کسی اسلامی ملک یا پاکستان کے کسی سفیر کو یورپین ممالک میں اس طرح تبلیغ کی اجازت ہے؟ کیا امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو ’’چرچ آف امریکہ‘‘ میں داخل ہو کر صوفی ازم کی تبلیغ کی اجازت ہے؟ کیا کسی پاکستانی سفارت کار کو برائن ڈی ہنٹ بن کر امریکی سیاست دانوں اور پالیسی سازوں سے برملا ملنے کی اجازت ہے؟ کیا صوفی ازم کا پرچار کرنے والے اپنے ملک میں قرآن کریم کو نعوذ باللہ جلانے والے شاتم کا محاسبہ کرتے ہیں ؟کیا صوفی ازم اور محبت و امن کی آشا کا پرچار کرنے والے یورپین اور پورپین نواز یہ سوچتے ہیں کہ ڈنمارک اور سویڈن میں پیغمبر اسلام کے خاکے کن کی ایما پر تیار کیے جاتے ہیں ؟ آج یورپین سفارت خانوں میں ہمارے بکنے والے مذہبی سکالروں سے لے کر صحافت کے ستاروں تک اور سیاست کے بڑے بڑے گُرو تک ایمبیسیوں میں ریڈ وائن اورشیمپئن کے گلاس اٹھائے کونسے صوفی ازم کا پرچار کر رہے ہیں۔ بلھے شاہ، باباغلام فرید شکر گنج ،شاہ لطیف بھٹائی ،امیر خسرو اورداتا گنج بخش کی تعلیمات کا پرچار کرنے کا دعویٰ کرنے والے دراصل اس ملک کی سیاسی اور نظریاتی اساس کو تبدیل کرکے اپنے مطلب کا رنگ چڑھانا چاہتے ہیں جو کہ یقینا پاکستان کی نظریاتی اساس سے میچ نہیں کرتا اور جب تک وطن عزیز میں ان غیرملکی آقائوں کو روکا نہیں جاتا جو ہمارے گلی محلے کی سطح تک پہنچ کر ہماری نظریاتی اساس کو کمزور کر رہے ہیں۔ جب تک یہ سیاسی قائدین کو خریدنے کا عمل جاری رکھیں گے پاکستان کا استحکام خطرے میں ہے ۔جب تک یہ وائسرائے اور ان کے ایلچی سیاسی نابالغوں کی پشت پناہی جاری رکھیں گے تب تک پاکستان میں جمہوریت جڑ نہ پکڑ سکے گی ۔جب تک سیاسی جماعتیں ان کے اثر سے نہیں نکلتی تب تک ان کی سیاسی سازشیں کامیاب ہوتی رہیں گی اور جب تک ہماری سیاسی جماعتیں سو فیصد پاکستانی نہیں بن جاتیں اور جب تک ہمارا بیوروکریٹ ،ہمارا دانشور، ہمارا مبلغ، ہمارا راہبر ،ہمارا محافظ ،ہمارا ڈاکٹر، ہمارا انجینئراور ہمارے صحافتی دوست اپنے وطن سے اتنی ہی مخلص نہیں ہو جاتے جتنے یورپین اور امریکن عوام۔ اور جب تک ہمارے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام ان عالمی سازشوں کے راستے میں عزم اور اتحاد سے سیسہ پلائی دیوار نہ بن جائیں اس وقت تک ترقی کے خواب دیکھنا بیکار ہے۔ (ختم شد)
دین اسلام کے یہ نئے ٹھیکے دار صوفی ازم کے مقدس مشن کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرکے مذہب اسلام میں ریفارمز کرنے کے طریقے کو ہوا دے رہے ہیں بھلا ایک کرسچئن مذہب سے تعلق رکھنے والی حکومت جنہوں نے 9/11کے بعد صلیبی جنگ، کروسیڈوار کا اعلان کیا تھا ان کو صوفی ازم سے بھلا کیا رشتہ ؟کیا کسی اسلامی ملک یا پاکستان کے کسی سفیر کو یورپین ممالک میں اس طرح تبلیغ کی اجازت ہے؟ کیا امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو ’’چرچ آف امریکہ‘‘ میں داخل ہو کر صوفی ازم کی تبلیغ کی اجازت ہے؟ کیا کسی پاکستانی سفارت کار کو برائن ڈی ہنٹ بن کر امریکی سیاست دانوں اور پالیسی سازوں سے برملا ملنے کی اجازت ہے؟ کیا صوفی ازم کا پرچار کرنے والے اپنے ملک میں قرآن کریم کو نعوذ باللہ جلانے والے شاتم کا محاسبہ کرتے ہیں ؟کیا صوفی ازم اور محبت و امن کی آشا کا پرچار کرنے والے یورپین اور پورپین نواز یہ سوچتے ہیں کہ ڈنمارک اور سویڈن میں پیغمبر اسلام کے خاکے کن کی ایما پر تیار کیے جاتے ہیں ؟ آج یورپین سفارت خانوں میں ہمارے بکنے والے مذہبی سکالروں سے لے کر صحافت کے ستاروں تک اور سیاست کے بڑے بڑے گُرو تک ایمبیسیوں میں ریڈ وائن اورشیمپئن کے گلاس اٹھائے کونسے صوفی ازم کا پرچار کر رہے ہیں۔ بلھے شاہ، باباغلام فرید شکر گنج ،شاہ لطیف بھٹائی ،امیر خسرو اورداتا گنج بخش کی تعلیمات کا پرچار کرنے کا دعویٰ کرنے والے دراصل اس ملک کی سیاسی اور نظریاتی اساس کو تبدیل کرکے اپنے مطلب کا رنگ چڑھانا چاہتے ہیں جو کہ یقینا پاکستان کی نظریاتی اساس سے میچ نہیں کرتا اور جب تک وطن عزیز میں ان غیرملکی آقائوں کو روکا نہیں جاتا جو ہمارے گلی محلے کی سطح تک پہنچ کر ہماری نظریاتی اساس کو کمزور کر رہے ہیں۔ جب تک یہ سیاسی قائدین کو خریدنے کا عمل جاری رکھیں گے پاکستان کا استحکام خطرے میں ہے ۔جب تک یہ وائسرائے اور ان کے ایلچی سیاسی نابالغوں کی پشت پناہی جاری رکھیں گے تب تک پاکستان میں جمہوریت جڑ نہ پکڑ سکے گی ۔جب تک سیاسی جماعتیں ان کے اثر سے نہیں نکلتی تب تک ان کی سیاسی سازشیں کامیاب ہوتی رہیں گی اور جب تک ہماری سیاسی جماعتیں سو فیصد پاکستانی نہیں بن جاتیں اور جب تک ہمارا بیوروکریٹ ،ہمارا دانشور، ہمارا مبلغ، ہمارا راہبر ،ہمارا محافظ ،ہمارا ڈاکٹر، ہمارا انجینئراور ہمارے صحافتی دوست اپنے وطن سے اتنی ہی مخلص نہیں ہو جاتے جتنے یورپین اور امریکن عوام۔ اور جب تک ہمارے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام ان عالمی سازشوں کے راستے میں عزم اور اتحاد سے سیسہ پلائی دیوار نہ بن جائیں اس وقت تک ترقی کے خواب دیکھنا بیکار ہے۔ (ختم شد)