چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ملک میں قائم کمیونٹی سکولزکی ممکنہ بندش اور پندرہ سوسے زائد اساتذہ کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی کےخلاف درخواست کی سماعت کی ۔ سکولز کی ڈائریکٹرنے عدالت کو بتایا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد کمیونٹی سکول کا معاملہ وفاق اور صوبوں کی عدم دلچسپی کا شکار ہوگیا ہے۔ سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کو گزشتہ گیارہ ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور سندھ کی حکومتیں کمیونٹی سکولز چلانے پر نیم رضا مند ہیں جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا نے یہ سکولز بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ان سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو سڑکوں پر پھینک دیا جائے گا۔ دنیا تعلیم پھیلارہی ہے جبکہ ہمارے ہاں تعلیمی ادارے بند کیے جارہے ہیں۔ مشیر پلاننگ کمیشن محمد آصف شیخ نے عدالت کو بتایا کہ کمیونٹی سکول کو بند کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے تمام ای ڈی اوز کوکمیونٹی سکولز کے طلباء کورسمی اور غیر رسمی سکولوں میں بھجوانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے صوبوں کی جانب سے باضابطہ تحریری جواب داخل نہ کرانے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز اورایڈووکیٹ جنرلز سے جواب طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت چودہ اکتوبر تک ملتوی کردی۔