ملک بنانے، بچانے کیلئے قربانیاں دیں، پتہ نہیں”قید“ کب ختم ہو گی: ہارون الرشید

Oct 10, 2012

لاہور (سیف اللہ سپرا) بنگلہ دیش میں محصور پاکستانی گذشتہ 40برس سے 70کیمپوں میں کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ لوگ آج بھی اس آس میں بیٹھے ہیں کہ حکومت پاکستان ایک دن ہمیں وطن واپس لائے گی۔ افسوس کہ 40برس میں حکومت پاکستان نے اس مسئلے کا حل نہیں نکالا۔ ان خیالات کا اظہار اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری محصور پاکستانیز بنگلہ دیش ہارون الرشید نے نوائے وقت کے مقبول سلسلہ ”گیسٹ ان ٹاﺅن“ میں کیا۔ انہوں نے کہاکہ ایک قیدی کی بھی مدت ہوتی ہے اُسے پتہ ہوتا ہے کہ اتنے برس بعد اُسے رہائی مل جائے گی۔ ہمیں تو پتہ ہیں نہیں کہ ہماری ”قید“ کب ختم ہو گی۔ ہمارا حکومت پاکستان سے مطالبہ ہے کہ محصورین کا مسئلہ جلد حل کیا جائے، ہم بنگلہ دیش حکومت کے شکرگزار ہیں کہ اس نے ہمیں نہ صرف اپنی سرزمین پر رکھا ہوا ہے بلکہ بجلی اور پانی مفت دیا جا رہا ہے۔ ہم نے 1947ءمیں قیام پاکستان کے لئے قربانیاں دیں، 1971ءمیں پاکستان بچانے کے لئے قربانیاں دیں، اس جرم میں ہم کیمپوں میں بے یارومددگار پڑے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں ایک مرتبہ پھر حکومت پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ ہمارے مسئلے کا فوری حل نکالا جائے تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ ہم نے بنگلہ دیش میں رہنا ہے یا پاکستان میں۔ اگر حکومت بنگلہ دیش ہمیں وہاں رکھنا چاہے تو ہمارا وہاں عزت کے ساتھ بندوبست کیا جائے اور اس کام میں حکومت پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہاکہ رابطہ عالم اسلامی اور حکومت پاکستان نے ایک رابطہ ٹرسٹ بنایا جس میں 100کروڑ روپے رکھے گئے یہ ٹرسٹ محصورین کے لئے ہی بنایا گیا۔ اس ٹرسٹ کے پیسے بھی استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔ اگر حکومت بنگلہ دیش ہمیں بسانا چاہتی ہے تو یہ پیسے حکومت بنگلہ دیش کو دے دئیے جائیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم اُمید کرتے ہیں کہ جناب مجید نظامی جس طرح اب محصورین کی مدد کر رہے ہیں، آئندہ بھی جاری رکھیں گے۔ اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری محصور پاکستانیز بنگلہ دیش نے ایڈیٹر انچیف نوائے وقت گروپ مجید نظامی کو 50سالہ صحافتی خدمات پر شیلڈ بھی پیش کی۔

مزیدخبریں