”غریب کو مت ماریں“

موجودہ حکومت کو اب چارہ ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے ان ابتدائی ایام میں ہی ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی کو بار بار مہنگا کرنے کی صورتحال یہ ہے کہ چند دن قبل سپریم کورٹ کو بجلی کی لوڈشیڈنگ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے یہ ریمارکس دینے پڑے کہ ”غریب کو مت ماریں۔“
آغاز میں ہی حکومت کی عوامی مسائل کو حل کرنے کی ”دلچسپی“ اور ”عوام دوستی“ کا یہ کھلم کھلا ثبوت ہے۔ عوام کو اپنے اُس مخلص ”ہمدرد“ وزیراعظم کی تلاش ہے جس نے چار ماہ قبل الیکشن مہم میں حالات کے مارے ہوئے عوام کے آنسو صاف کرتے یہ ”وعدے“ کئے تھے کہ ”آپ مجھے وزیراعظم بنا دیں میں وزیراعظم ہاﺅس نہیں بلکہ آپکے ساتھ ہی بیٹھوں گا، جس اٹھارہ بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے آپ پریشان ہیں میں وہ ختم کر دوں گا، مہنگائی اور بیروزگاری سے آپ بیزار ہیں میں ان پریشانیوں سے آپ کو نجات دلاﺅں گا۔“
عوام نے تو اپنا وعدہ نبھا دیا مگر ابھی تک وزیراعظم صاحب کسی ایک وعدے کو بھی پورا کرتے نظر نہیں آ رہے بلکہ وہ عوام کی نظروں سے ہی ”اوجھل“ ہیں، وہ اپنی الگ دنیا میں ”مگن“ ہیں۔ یہ ہی ”وعدے“ گزشتہ پانچ سالوں میں صدر آصف زرداری نے کئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کل تک موجودہ وزیراعظم جو زرداری صاحب کو لمحہ بہ لمحہ تنقید کا نشانہ بناتے تھے اب جب ”اقتدار“ انکے ہاتھ لگ گیا ہے تو انہوں نے زرداری صاحب کو باقاعدہ پروٹوکول کیساتھ نہ صرف رخصت کیا بلکہ ان کو دئیے گئے ظہرانے میں انہی زرداری صاحب کی خدمت کو ”بہترین خدمت“ بھی قرار دیا۔
وزیراعظم صاحب کی ”عوام دوستی“ اور ”غریب پروری“ کا بھانڈا ابتدائی چار ماہ میں ہی پھوٹ گیا ہے۔ بجلی چار بار مہنگا کر کے گزشتہ حکومت کی کارکردگی کو بھی مات دے دی ہے۔ مہنگائی اس قدر زیادہ کر دی گئی ہے کہ غریب دو وقت کی روٹی کیلئے پریشان ہے۔ 10 کلو آٹے کا تھیلا 450 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ 480 ارب روپے کی ادائیگی کے باوجود لوڈشیڈنگ جوں کی توں ہے۔ ایک طرف بجلی ہے نہیں مگر اسکی وزارت سے دو افراد کو نوازا گیا ہے۔
لمحہ فکریہ ہے کہ ملک میں ایک طرف غربت کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی خاندان کی پانچ بہنیں محض غربت کے باعث ہاتھ پیلے نہ ہونے کی وجہ سے خودکشی کر لیتی ہیں اور والدین اسی غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں مجبور اپنے ہی بچوں کو دریا بُرد کر رہے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم صاحب جس دورے پر بھی تشریف لے جاتے ہیں اپنی پوری ٹیم کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ کیا یہ قومی خزانے پر بوجھ اور کرپشن نہیں ہے۔ ان غیر ملکی دوروں سے جو بھی فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ بھی انہی دورے کرنے والوں تک ہی محدود ہوتے ہیں، آج تک عوام ان دوروں کے ثمرات کبھی نہیں پہنچ سکے۔ وزیراعظم صاحب پاکستان میں تو حالات مسائل کی وجہ سے اپنی مسکراہٹ کیلئے بھی بے چین نظر آتے ہیں مگر غیر ملکی دوروں میں ”مسکراہٹ“ ان کا ساتھ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ نبھاتی ہے۔ بلاشبہ اقتدار کو قرآن و حدیث میں واضح طور پر آزمائش قرار دیا گیا ہے اور حدیث کی رو سے حکمرانوں سے انکی رعیت (عوام) کے بارے قیامت کے روز بازپُرس ہو گی۔ ملک میں جو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) بدقسمتی سے دونوں ہی عوام کے مسائل سے بے بہرہ اور لاتعلق نظر آتے ہیں۔ ان دونوں میں فرق صرف نام نہاد شرافت کا ہے۔ پیپلز پارٹی جب برسر اقتدار آتی ہے، سرعام اور کھلم کھلا کرپشن کرتی ہے، ملکی اداروں کو تباہ کرتی ہے، ملکی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔
گزشتہ دور اس کی واضح مثال ہے اور مسلم لیگ (ن) والے بھی کرتے، سبھی کچھ یہی ہیں مگر وہ یہ سب کچھ شرافت کے ساتھ کرتے ہیں۔ غریب عوام کیلئے یہ دونوں ہی مسیحا نہیں بلکہ عذاب بن کر آتے ہیں اور غریبوں کو مارنے میں کوئی بھی حربہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ سب کچھ کریں لیکن ”غریب کو مت ماریں۔“

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر دی نیشن