لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس خالد محمود خان نے خسرہ سے ہونے والی ہلاکتوں کے معاملہ پر وزیر اعلیٰ پنجاب سے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ 14 اکتوبر کو طلب کر لی ہے۔ فاضل عدالت نے گذشتہ روز رپورٹ پیش نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا کہ وزیر اعلیٰ تنخواہ لیتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ عوام کی خدمت کریں نہ کہ رپورٹ اپنے پاس رکھ کر سو جائیں۔ فاضل عدالت نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو حکم دیا ہے کہ وہ انکوائری رپورٹ کے مطابق ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں۔ فاضل عدالت نے گذشتہ روز کیس کی سماعت کی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وہ آئندہ سماعت پر رپورٹ پیش کر دیں گے جبکہ ڈاکٹر ظفر اقبال کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خسرہ ویکسین لگنے سے 40 فیصد مریض ہیپاٹائٹس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ویکسین کو محفوظ رکھنے کا نظام درست نہیں جس کی وجہ سے بہتر نتائج نہیں ملتے۔ پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انکوائری کمشن کی رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس پڑی ہے رپورٹ پیش نہ کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ 14 اکتوبر تک رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ رپورٹ وزیر اعلیٰ کی منظوری کے بعد عدالت میں پیش کی جائے گی۔ عدالت نے قرار دیا کہ خسرہ سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ کارروائی نہیں کر رہے، عدالت نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کوئی کام کرتے بھی ہیں کہ نہیں؟ تین تین ماہ رپورٹ ان کے پاس پڑی رہتی ہیں، وزیر اعلیٰ سرکاری خزانہ سے تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں قوم کی فلاح ان کا اولین فرض ہے۔ جسٹس خالد محمود خان کا کہنا تھا کہ بندے مر رہے ہیں اور وزیر اعلیٰ رپورٹ اپنے پاس رکھ کر سو رہے ہیں۔ یہ انسانی جانوں کے ضیاع کا معاملہ ہے تین روز میں خسرہ ویکسین اور اموات پر رپورٹ پیش کی جائے جبکہ عدالت نے خسرہ سے ہونے والی ہلاکتوں کے کیس کی سماعت پر کارروائی 14 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو ہدایت کی ہے کہ خسرہ سے ہونے والی ہلاکتوں سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ لاہور ہائی کورٹ کے روبرو خسرہ کی وبا پھیلنے کے ذمہ داروں کے تعین اور انہیں سزا دینے کے لئے درخواست دائر کی گئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جعلی اور غیر معیاری ویکسین کے سبب خسرہ نے وبا کی شکل اختیار کر لی ہے جس کی وجہ سے بچوں کی شرح اموات میں اضافہ ہوا ہے لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ وہ اس امر کا نوٹس لے۔