ان کی یہ دلیل یقیناً وزنی ہے۔ اگر مملکت پاکستان اور اس کے ادارے ان سے باضابطہ طور پر کوئی ڈیوٹی لے رہے تھے۔ تو اس سلسلے کے باقاعدہ خاتمے کی اطلاع دی جاتی اور انہیں کوئی متبادل فریضہ سونپا جاتا۔ ایسے تربےت ےافتہ عناصر ہی بعد میں منظم مسلّح تنظیموں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان اور کئی گروپ اپنے اپنے طور پر جہادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ یہ افغان طالبان کی طرح منظم نہیں ہیں۔ جہاں ملاّ عمر سیاسی ۔ مذہبی۔ انتظامی طور پر سربراہ ہیں ان کا فرمان واضح طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں جہادی کاروائیوں میں مصروف گروپ کسی ایک کو اپنا قائد نہیں مانتے ہیں۔ مختلف گروپ مختلف سربراہوں کی قیادت میں تشددانہ کاروائیاں کرتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے پاکستانی علماءمیں سے مولانا تقی عثمانی، مولانا سلےم اللہ، مفتی منےب الرحمٰن، ساجد مےر اور احمد کمال الدےن کو احترام کی نظر سے دےکھا جاتا ہے۔
ےہ تو وہ معلومات ہےں جو مجھے کچھ حضرات سے گفتگو سے حاصل ہوئی ہےں۔ ضرورت ےہ ہے کہ تحرےک طالبان پاکستان اور دوسرے گروپوں کی حقیقی سوچ اور فکر سے بھرپور واقف ہواجائے۔ اسے عوام تک پہنچاےا جائے۔ کےونکہ عام مسلمان اس تشوےش مےں مبتلا ہے کہ آخر شدت پسند مسلمان کس منزل کے لےے ےہ راستہ اختےار کررہے ہےں۔ نوجوان اپنی زندگی کو ہتھیار کیوں بنا رہے ہیں۔ زندگی تو اللہ تعالٰی کی انتہائی حسین نعمت ہے۔ اسے بم میں کیوں ڈھالا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ دلیل دی جاتی ہے کہ امریکہ کے ساتھ جنگ میں شریک ہو کر پاکستانی فوج مرتد ہو گئی ہے اس لیے انکے افسروں، سپاہےوں کو قتل کرنا عےن شرع کیمطابق ہے۔ ڈرون حملوں مےں طالبان ےا دوسرے گروہوں کے بڑے کمانڈر ہلاک ہوئے ہےں۔ اس لےے انکے جواب مےں جنرلوں۔ برےگےڈیئر اور جی اےچ کیو پر حملے جائز ہےں۔ مگر جب صوفی منش سرجن جنرل مشتاق کو شہےد کیا جاتا ہے۔ تو طالبان سے ہمدردی رکھنے والوں کے دل بھی لرز کررہ جاتے ہےں۔
طالبان انکے واقفان حال اور ہم نواو¿ں کے پاس بھی بے گناہ شہرےوں، مسجدوں، مزاروں، گرجوں پر دھماکوں اور عام بچوں، خواتےن کی ہلاکتوں کا کوئی جواز نہےں ہے۔ اس پر تحقےق ضروری ہے کہ جن دہشت گردوں کو بھی ان مقامات پر اےسی کارروائےوں کے لےے بھےجا جاتا ہے۔ ان کو کس طرح قائل کیا جاتا ہے۔ اور کیا اسباب بتائے جاتے ہےں۔ طالبان رہنما اس بربرےت کے حق مےں کیا دلےل دےتے ہےں۔
جےسا کہ شروع مےں کہا گےا کہ اس مسئلے کے حل کو اولےن ترجےح دی جانی چاہےے۔ پاکستان کا حال لہو لہو ہے۔اتحاد پارہ پارہ ہے۔ مستقبل خطرے مےں ہے۔ مملکت کی بقا کا سوال ہے۔ جس سوچ سے نوجوان ذہن متاثر ہوں۔ اور وہ اپنی جان کا نذرانہ دےنے کو تےار ہوجائےں۔ ےہ سلسلہ رک ہی نہ رہا ہو۔ تو معاشرے کے لےے ےہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ صرف سےاستدانوں، جہادےوں اور مےڈےا کی نہےں۔ ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے۔ ان ذہنوں مےں جھانکےں۔ وہ بھی مسلمان ہےں۔ کلمہ گو ہےں۔ پاکستانی ہےں۔ آخر کن خےالات اور نظرےات کی بنا پر وہ ہتھےار اٹھاکر اپنی جان بھی لے رہے ہےں۔ اور دوسرے مسلمانوں کی بھی۔ اس سے معاشرے مےں بے ےقےنی پھےل رہی ہے۔ عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ اپنے مذہب کے بارے مےں تشوےش پےدا ہورہی ہے۔ صرف وقتی مذاکرات نہےں۔ اےک پائےدار لائحہ عمل سے ذہنی ساخت تبدےل کرنے کی ضرورت ہے۔
ےونےورسٹےوں، دےنی مدارس مےں اشتراک ناگزےر ہے۔ دونوں مل کر صراطِ مستقےم تلاش کرسکتے ہےں۔ علمائ، اسکالرز، دانشوروں کو بھی بھرپور حصّہ لےنا چاہےے۔ پاک فوج نے اپنے طور پر De Radicalisation بنےاد پرستی کے خاتمے۔ سوچ کی تبدےلی اور ذہن سازی کے لےے بھر پور پروگرام شروع کیا ہے۔ ان کا احساس ےہ ہے کہ:-
گزشتہ تےن دہائےوں سے پاکستان مےں انتہا پسندی مےں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ خطے کے اطراف مےں مخدوش اور غےر ےقےنی حساس حالات کا ظہور اور کئی داخلی عوامل نے اس منظر نامے کی تشکےل مےں فعال کردار ادا کیا ہے۔ کمزور حکمرانی۔ سماجی ثقافتی ناہمواری۔ نازک سےاسی تمدّن۔ اقتصادی اور تعلیمی مواقع کے فقدان نے ماحول کو انتہا پسندوں کی کی طرف راغب کیا ہے۔ شدت اور انتہا پسندی کے مضمرات سے لا علم۔ مختلف تاثراتی احساسات کے شکار۔ گروپ اور افراد مختلف اسباب کی بنا پر دہشت گرد تنظےموں کے استحصال کا ہدف بن رہے ہےں۔ اس عمل مےں ٹےکنالوجی اور ذرائع ابلاغ اگرچہ غےر ارادی طور مگر اےک معنی خےز کردار ادا کررہے ہےں۔
اس صورتیحال کے مقابلے کے لےے مختلف ممالک مےں انتہا پسندی کو جڑ سے ختم کرنے کے لےے کئی طرےقے اختےار کئے ہےں۔ لےکن ضرورت ےہ ہے کہ اےک جامع قومی نقطہ نظر اور حکمتِ عملی مرتب کی جائے۔ تاکہ اس مسئلے کو موثر اور پائے دار بنےادوں پر حل کیا جاسکے۔
پاکستان کی مسلّح افواج نے انتہا پسندوں کی متشددانہ کاروائےوں کا جواب عسکری انداز سے تو دےا ہی ہے۔ مگر انتہا پسندانہ ذہنی رجحانات کے خاتمے کے لےے باقاعدہ اصلاحی پروگرام بھی 2009 سے شروع کیا۔ بجا طور پر اس حقےقت کو تسلےم کیا گےا کہ دہشت گردوں کا مقابلہ طاقت سے کیا جاسکتا ہے۔ لےکن ان نظرےات کو شکست نہےں دی جاسکتی۔ جس سے اےک انتہا پسند ذہن کی ساخت ہوتی ہے۔ جو اےک فرد ےا گروہ کی سوچ مےں شدت پےدا کرتے ہےں۔ تشدد کے راستے پر چلنے والوں کے ذہنوں مےں بھڑکتی آگ کو بجھانے کے لےے خصوصی اقدامات درکار ہےں۔ سوات کے تجربے مےں شدت پسندوں کے درج ذےل محرکات سامنے آئے۔
1 ۔ مذہبی نظرےات پر مبنی بےانوں کی مخالفت پر جذباتی اپےلےں۔
2 ۔ دےنی تعلےمات کی غلط تشرےح
3 ۔ اسلحہ۔ منشےات کا پھےلاو¿۔ امن و امان کی خراب صورتِ حال جس سے مملکت کا اختےار متاثر ہو۔
4 ۔ سماجی اقتصادی صورت حال مےں مستقل ناہمواری۔
5 ۔ فساد اور تشدد کو روکنے کے لےے مملکت کی غےر فعالےت اور عدم احساس۔
6 ۔ قبائلی حکمرانی نظام کی ناکامی پر خاموش رضامندی۔
7 ۔ غربت۔ سب سے زےادہ۔
سوات 2009 مےں اپرےشن راہ راست کے ساتھ ہی پاک فوج نے معاشرے کے خلاف ہتھےار اٹھانے والوں کی بحالی کے لےے ڈی رےڈےکلائزےشن کا پروگرام شروع کیا۔ اسکے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے۔ تفصےلات کے مطابق۔ مشعل پاٹھکام۔ مالاکنڈ (2010) صباعون۔ پےرانو۔ مالاکنڈ (2009) ہیلہ ٹانک (2011)۔ نوائے سحر خار باجوڑ (2012) مےں مراکز کام کررہے ہےں۔ مالاکنڈ مےں رستون ۔ فےسٹ زرغونہ مےں بھی کام ہوا۔ اسی طرح غلہ نئی۔ مہمند ۔ مشعل بری کورٹ مےں ےہ سہولتےں بھی کامےاب کوشش کے بعد بند کردی گئےں۔ کوئٹہ مےں بھی نو عمر لڑکوں لڑکےوں کے لےے ےہ مراکز مصروف عمل ہےں۔ ےہاں تو مجھے خود بھی مشاہدے کا موقع ملا تھا۔
پاک فوج نے ےہ عمل بہت منظم انداز سے سوچ بچار کے بعد شروع کیا تھا۔ بنےادی مقاصد ےہ تھے ۔ 1 ۔ سازگار ماحول پےدا کرنا۔ 2 ۔ ذہنوں سے نفسےاتی بوجھ دور کرنا۔ 3 ۔ اےسے مراکز جہاں انتہا پسندی کے خاتمے کے لےے بعد مےں بھی قومی سطح پر مساعی جاری ہےں۔ 4 ۔ پےشہ ورانہ تربےت۔ باعزت روزگار کے لےے ہنر سکھانا۔ 5 ۔ افراد کو اقتصادی خود کفالت۔ پےشہ ورانہ موثرےت اور سماجی ذمہ داروں کے لےے آمادہ کرنا
پروگرام سے مستفےد ہونے والوں کی نوعےت کا بھی تعےن کیا گےا۔
1۔ شدےد۔ دہشت گردی کے واقعات مےں سرگرمی سے ملوث
2۔ سر گرم حامی۔ اےسے افراد جو دہشت گردوں کے نظرےات کے حامی ہےں۔ لےکن دہشت گردی مےں خود حصّہ نہےں لےتے۔
3۔ عام حامی۔ خاموشی سے حماےت کرتے ہےں۔ دہشت گردی مےں حصہ نہےں لےتے۔
4۔ اعتدال پسند۔ کسی قسم کی سرگرمی نہےں پائی گئی۔(قسط 4/3 .... جاری)