مینگورہ، اسلام آباد، کراچی (اے ایف پی+ نوائے وقت رپورٹ+ سٹاف رپورٹر) ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملے کو ایک سال بیت گیا تاہم ملزمان گرفتار نہ ہوسکے۔ 9 اکتوبر 2012ء کو مینگورہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ملالہ یوسفزئی اور اسکی 2 ساتھی طالبات شازیہ رمضان اور کائنات ریاض زخمی ہوگئی تھیں۔ اِدھر سوات میں ملالہ کا سکول بند رہا، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے کہا حملے کے خدشے پر ہم نے سوات میں کوئی تقریب نہیں کی۔ ثناء نیوز کے مطابق ملالہ کے استاد فضل خالق کا کہنا ہے لڑکیوں کی تعلیم کیخلاف ملالہ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اور انہوں نے جو زخم کھائے اس سے اس علاقے کو سرخرو کردیا۔ اِدھر ریڈیو چینل ایف ایم سٹی 89 سے گفتگو کرتے ہوئے ملالہ نے کہا میری خواہش ہے تعلیم کے فروغ کی خاطر مزید کام کروں۔ میں نے ابھی ایسا کچھ نہیں کیا کہ نوبل انعام مجھے دیا جائے۔ نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں کہا میرا پیغام اب ساری دنیا تک پہنچ چکا ہے۔ طالبان حملہ کر کے پچھتا رہے ہونگے۔ زخمی ہونے کے بعد 7 روز تک ہوش نہیں آیا۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ میرے والد نے مجھے اہمیت دی۔ میرا نام ملالہ رکھا گیا۔ وہ ایک افغان لڑکی تھی جس نے بہت کم عمر میں انگریزوں کیخلاف لڑائی لڑی۔ اس نے افغانیوں سے کہا کہ آپ اگر لڑائی نہیں کرینگے تو ہمیشہ کیلئے غلام بن کر رہ جائینگے۔ وہ ایک طرح سے پاکستان کی ’’جون آف آرک‘‘ تھی۔ میں اسکی روایت کو جاری رکھنا چاہتی ہوں۔ تمام پشتو ن دہشت گرد نہیں ہوتے۔ دنیا بھر میں پشتون ہونے کا یہ مطلب نکا لا جاتا ہے کہ وہ دہشت گرد ہوتے ہیں۔ وہ افغانستان میں لڑائی کرتے ہیں اور طالبان بن جاتے ہیں۔ یہ سچ نہیں، دہشت گردی صرف چند لوگ ہیں۔ عورتوں کے حقوق کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس حقیقت سے واقف ہوں کہ وہاں خواتین کو ویسے ہی حقوق نہیں دیئے جاتے مثلاً ایسے بہت سے آدمی ہیں جو باہر جا سکتے ہیں، جیسے چاہے زندگی گزار سکتے ہیں لیکن جب ہم عورتوں کو دیکھتے ہیں تو وہ اپنی زندگی صرف گھروں میں گزارتی ہیں۔ اپنے اگلے امتحان کے بارے میں سوچ رہی تھی کیونکہ اس ہفتے ہمارے امتحانات ہو رہے تھے، 9 اکتوبر کا پیپر بہت اچھا ہوا تھا۔ وہ پاکستان اسٹڈیز کا پیپر تھا۔ اس سے ایک دن پہلے فزکس کا مشکل پیپر تھا۔ مجھے اپنے اگلے پیپر کی فکر تھی۔ گولی لگنے کے سات دنوں کے دوران مجھے خواب آئے۔ ایک تصویر میں لوگوں کا بڑا ہجوم ہے، وہ میرے ارد گرد تھے، میں اپنے ابو کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ اچانک میں نے اپنے ابو کو بائیں طرف دیکھا۔ انہوں نے مجھے اور میں نے انہیں کچھ کہا۔ پھر میں نے آنکھیں بند کیں اور میرے چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔ مجھے ایک نئی زندگی ملی تھی۔ اپنی کتابیں، قلم اور سکول میں سہیلیوں سے باتیں کرنا بہت پسند ہے۔ برمنگھم میں بچوں کو بدلنے کا موقع دیا جاتا ہے اور بچوں کو چھڑی اور تھپڑ سے مار کر سزا بھی نہیں دی جاتی۔ برطانیہ میں رہتے ہوئے میں مغربی تہذیت نہیں اپنا رہی۔ برطانوی تہذیب نئی تہذیبوں کو قبول کرتی ہے۔ میں دہشت گردی کے معاملات کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتی کیونکہ یہ حکومت کا کا م ہے اور میں طالبان سے بھی گزارش کرتی ہوں کہ وہ یہ کام کرنا بند کر دیں۔ دہشت گرد جو کر رہے ہیں وہ سچا اسلام نہیں ہے۔ میں پاکستان اور پوری دنیا کے لوگوں کی مشکور ہوں کہ انہوں نے دوسرے ہی دن بینر اٹھا کر کہا میں ملالہ ہوں۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں طالبان ہوں۔ انہوں نے اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھائی۔ انہوں نے تعلیم کیلئے آواز اٹھائی۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی۔ ملالہ کو اب دنیا کے ہر کونے میں سنا جا رہا ہے۔ پاکستان واپسی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے لیکن اس سے پہلے خود کو طاقتور بنائوں گی۔ یونیورسٹی اور کالج جائوں گی۔ میں سمجھتی ہوں ابھی تک وہ مقام حاصل نہیں کیا کہ نوبل انعام دیا جائے۔ ادھر کل جمعہ کو نوبل انعام کا فیصلہ ہوگا۔ سکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے ملالہ کے ڈاکٹر فیونہ رینالہ نے کہا ملالہ نوبل انعام کی حقدار ہیں۔