ایک پٹھان نے اپنے بچے کا نام ’امریکہ خان ‘ رکھ لیا۔لوگوں نے کہا ’امریکہ آپ کا دشمن ہے اور آپ نے بچے کا نام رکھ دیا ہے۔پٹھان نے کہا ’ہم دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ ہم امریکہ کا باپ ہے۔۔۔ امریکہ کا باپ بننے کا ایک یہی طریقہ بچا ہے ورنہ غلام کہلانے والا ملک امریکہ کا باپ بننے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔امریکہ خان نے پاکستان کی عزت رکھ لی ۔ امریکی حکومت کو پٹھان کے بچے کے نام پر اعتراض نہیں البتہ امریکی عدالت کو ”مسیح“نام رکھنے پر اعتراض ہے۔ایک امریکی گھرانے نے اپنے بچے کا نام”مسیح “ رکھا ،عدالت میںایک تنازعہ لے کر گئے کہ ان کا بیٹا کس کا خاندانی نام اپنائے ،مجسٹریٹ نے بچے کا نام ہی تبدیل کرنے کا حکم سنادیا۔مجسٹریٹ کا کہنا تھا کہ یسوع مسیح ہی اصل مسیح ہیںاور اس نام سے لوگ ناراض ہو سکتے ہیں۔آزادی مذہب کی تنظیم نے احتجاج کیا کہ مرضی کا نام رکھنا والدین کی ذاتی پسند ہے،اسے غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔مجسٹریٹ کو فیصلہ منسوخ کرنا پڑا البتہ اس نے والدین کو روحانی وارننگ ضرور دے دی کہ اس نام سے بچے پر ایسا بوجھ پڑے گا کہ وہ بوجھ اٹھا نہیں سکے گا۔۔۔’امریکہ خان“ بھی اپنے نام کا بوجھ شاید نہ اٹھا سکے مگر امریکہ کے باپ کی غیرت نام تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دے گی البتہ امریکی عدالت کو ’امریکہ خان‘کے نام کا علم ہو گیا تو باپ کو ’نانی‘ یاد کرا د ی جائے گی۔امریکہ تمام عالم اسلام کا باپ بنا ہواہے۔ وہ سات اکتوبر کا دن تھا جب امریکہ نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور یوں دنیائے اسلام میں بلا جواز حملوں کی باقاعدہ شروعات ہوئی۔ امریکہ کی افغانستان پر چڑھائی کو بارہ برس بیت چکے ہیں۔7 اکتوبر2001ء کو امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ امریکہ کی تاریخ میں یہ سب سے طویل جنگ ہے۔اس جنگ میں تین ہزار سے زائد بین الاقوامی فوجی ہلاک ہو چکے ہیںجن میں امریکیوں کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ افغان شہریوں کی ہلاکتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس جنگ کا جواز 11 ستمبر2001کو امریکہ میں ہونے والے دہشت گردحملے تھے۔حملوںکا الزام القاعدہ پر لگایا گیا تھااور اسامہ بن لادن نے حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کر لی تھی مگر امریکہ نے انتقامی کاروائی کا ہدف افغانستان کو بنایا اور وہاں جارحانہ حملہ کرکے ان پر جنگ مسلط کر دی۔ طالبان کے خلاف یہ جنگ اس لئے لڑی گئی کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی۔افغانستان میں قریبََا بارہ سال سے جاری جنگ کے عام شہریوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔اوباما حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ 2014میں ذمہ داریاں مکمل طور پر افغان فورسز کے حوالے کرنے کے بعد انخلا کا عمل شروع ہو گا جبکہ امریکی حکام نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے بغیر افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا مشکل عمل ہے۔نیٹو افواج بھی افغان جنگ کا خاتمہ چاہتی ہیں۔برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے ایک بیان میں کہا تھاکہ ہمارے عوام فوجیوں کی گھروں کو واپسی چاہتے ہیں تاہم ہم کھلے دل سے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں جمہوریت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور وہاں ترقی کے حوالے سے بے شمار مسائل موجود رہیں گے۔بارہ سال قبل سات اکتوبر کے روز شروع ہونے والی افغان جنگ ،عراق سے ہوتی ہوئی پاکستان پہنچ گئی۔پاکستان میں بظاہر جنگ ہوتی دکھائی نہیں دے رہی مگر در حقیقت پاکستان امریکہ کی جنگ میں ہی جھلس رہاہے۔عمران خان کو بھی وزیر اعظم پاکستان بنا دیا جائے ،پاکستان امریکہ کا باپ نہیں بن سکے گا۔پاکستان کے حالات اس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتے جب تک دوست اور دشمن کے بیچ واضح لکیر نہیں کھینچ دی جاتی۔چین ،ترکی،سعودی عرب جیسے ممالک کو برملا دوست کہا جاتا ہے مگر ان دوستوں کے بھی امریکہ کے ساتھ مفادات کی دوستی ہے اورپاکستان دنیا کے نقشے پر تنہا کھڑاہے۔دہشت گردی کے ہاتھوں کھنڈر بننے والے اس ملک میں نہ کوئی سرمایہ کاری کارسک لینا چاہتا ہے اور نہ ہی اس کنگال ملک کے پاس کسی کو دینے کے لئے کچھ بچا ہے۔ چور پہلے گھر میں نقب لگاتے ہیں اور پھر مسلح ہو کر آتے ہیں اور ڈکیتی کی واردات کر جاتے ہیں۔پاکستان میں ایٹمی اثاثوں کے سوا بچا ہی کیا ہے پاک امریکہ تعلقات کی گتھی روز بروز الجھتی چلی جا رہی ہے۔ امریکہ غالباً ابھی جنگ سے ’رجیا‘ نہیں اور مسلم افریقہ میں پنگا لینے کا صدر امریکہ نے ”ہے جمالو“ کا اعلان کر دیا ہے۔
”امریکہ کا باپ“
”امریکہ کا باپ“
Oct 10, 2013