دفاع کے نام پر عوام کی اراضی نجی اداروں کو دی جا رہی ہے: سپریم کورٹ

لاہور (وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے ملٹری سٹیٹ بہاولپور کے 89 متاثرین کو ساڑھے بارہ ایکڑ کے فی کس کے حساب سے متبادل زمین الاٹ کرنے کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔ عدالت نے سماعت کے دوران قرار دیا کہ دفاع کے نام پر عوام کی زمین لے کر نجی اداروں کو دی جا رہی ہے۔ وزارت دفاع کے ماتحت تمام ایجنسیوں کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل فل بنچ نے بورڈ آف ریونیو کی طرف سے دائر اپیل پر سماعت شروع کی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قیصر ترین خان نے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے بورڈ آف ریونیو کو حکم دیا تھا کہ وہ 89 متاثرین کو سن کر ان کی عرضداشتوں پر فیصلہ کرے، بورڈ آف ریونیو نے فیصلے پر عملدرآمد کا سلسلہ شروع کیا مگر ہائیکورٹ نے دوبارہ درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے ان متاثرین کو ساڑھے بارہ ایکڑ فی کس کے حساب سے متبادل زمین دینے کا فیصلہ جاری کر دیا جو غیرقانونی ہے۔ دفاعی مقاصد کیلئے ان افراد سے 1993ء میں اراضی لی گئی تھی جس کے عوض صرف رقم کی شکل میں معاوضہ دیا جا سکتا ہے اور متبادل زمین الاٹ نہیں کی جا سکتی کیونکہ پنجاب لینڈ ایکوزیشن ایکٹ اس اقدام کی اجازت نہیں دیتا، عدالت نے استفسار کیا کہ کس دفاعی مقاصد کیلئے کون سی ایجنسی نے زمین ایکوائر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ زمین ایکوائر کرنے کے نوٹیفکیشن میں کسی ایجنسی کا ذکر نہیں ہے، صرف اتنا لکھا گیا ہے کہ یہ زمین دفاعی مقاصد کیلئے حاصل کی جا رہی ہے، سرکاری وکیل کے غیرتسلی بخش جواب پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دفاع کے نام پر عوام سے زمینیں لے کر نجی اداروں کو دی جا رہی ہیں، وزارت دفاع کے ماتحت تمام ایجنسیاں قانونی نہیں ہیں بلکہ آرمی ویلفیئر آرگنائزیشن کی طرح بہت سی پرائیویٹ آرگنائزیشن ہیں، سرکاری وکیل نے استدعا کی کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، متاثرین کی طرف سے مزمل خان ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرتے وقت حقائق چھپائے، سپریم کورٹ نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد بورڈ آف ریونیو کی استدعا منظور کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا اور رجسٹرار آفس کو ہدایت کی کہ ملٹری سٹیٹ بہاولپور کی اراضی الاٹمنٹ سے متعلق تمام درخواستوں کو یکجا کر کے جلد سماعت کیلئے پیش کیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...