شام میں داعش کے پاس امریکی مغوی عبدالرحمن کیسگ پکا مسلمان‘ نمازی بن گیا: بی بی سی

لندن (نیٹ نیوز) امریکی مغوی امدادی کارکن پیٹر کیسگ جنہیں دولت اسلامیہ (داعش) نے اغوا کر لیا تھا، قید کے دوران وہ ’’پکے مسلمان‘‘ ہو چکے ہیں۔ پیٹر کیسگ کے ساتھی قیدی کا کہنا ہے کہ پیٹر نے اپنا نام تبدیل کر لیا ہے اور وہ اب ’’عبدالرحمان کیسگ‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ پیٹر کیسگ کے ساتھ قید میں رکھے جانے والے ایک قیدی کا کہنا ہے کہ وہ 26 سالہ عبدالرحمان کیسگ کو ان دنوں سے جانتے ہیں جب وہ پہلی بار شام اور ترکی کی درمیانی سرحد پر ملے تھے اور دونوں نے امدادی کام کا آغاز کیا تھا۔ ڈاکٹر انس کے بقول کیسگ کبھی دنیا دار شخص نہیں تھے کیونکہ وہ کھْل کے بات کرتے تھے، دیانت دار تھے، قدرے جذباتی تھے، عام لوگوں کی مدد کر کے خوش ہوتے بہت جلد مزاحمت کاروں کے بہکاوے میں آ جاتے تھے: ’اسی لیے بعد میں جب میں نے اْس کے والدین کو یہ کہتے سنا کہ ان کا بیٹا اس دنیا میں اپنے مقام کی تلاش میں تھا تو سچ پوچھیں مجھے کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔‘ لگتا ہے پیٹر کیسگ کو جس چیز کی تلاش تھی وہ انہیں مل گئی اور انہوں نے شام سے تعلق رکھنے والے طبی اہلکاروں کو تربیت دینا شروع کر دی۔ ان کی تربیت کی بدولت شاید کئی لوگ موت کے منہ میں جانے سے بچ گئے۔ ان کا کام آسان نہیں تھا وہ ہر وقت گولیوں، بموں، فضائی حملوں اور اغوا کیے جانے کے خطرات میں گھرے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر انس کے بقول جب وہ آخری مرتبہ کیسگ سے ملے تو انہوں نے پوچھا: ’پیٹر، تمہیں مرنے سے ڈر نہیں لگتا، تو اس کا جواب تھا کہ تم سب کی زندگیوں کے مقابلے میں میری زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔‘ گذشتہ برس عبدالرحمان کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ ’اپنے اغوا کے بعد بہت جلد ہی پیٹر نے اسلام قبول کر لیا تھا اور عبدالرحمان کہلانے لگ گیا تھا۔ جب میں اسے پہلی مرتبہ ملا تو وہ اس وقت بھی تمام پہرے داروں کو اپنا نام عبدالرحمان ہی بتا رہا تھا۔ ’پیٹر نے مجھے بتایا کہ اسلام اس کے لیے کتنا اہم ہے اسے قید سے نمٹنے میں اسلام کتنی مدد کر رہا ہے۔ وہ بہت پکا مسلمان ہو چکا تھا۔ مجھے لگا کہ پیٹر قدرے پریشان تو ہے، لیکن اسلام اسے طاقت بخش رہا ہے۔ ’عبدالرحمان واحد مغربی مغوی نہیں تھا جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ہمارے گروپ میں چند اور لوگ بھی تھے جو مسلمان ہو چکے تھے۔ یہ لوگ پانچ وقت کے نمازی تھے، بلکہ بسا اوقات یہ لوگ دو اضافی نمازیں بھی پڑھتے تھے۔ یہ لوگ پیر اور جمعرات کو روزہ بھی رکھتے تھے جو کہ فرض نہیں بلکہ اضافی ہے۔‘ یاد رہے کہ عبدالرحمان قید سے اپنے گھر والوں تک ایک خط پہنچانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اس خط میں ان کا کہنا تھا: ’جہاں تک میرے ایمان کا تعلق ہے، تو ہر روز نماز پڑھتا ہوں اس لحاظ سے میں اپنی قید سے پریشان نہیں ہوں۔ اگرچہ عقیدے کے لحاظ سے آج کل مجھے تھوڑی پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا ہے، لیکن میں اپنے عقیدے سے مطمئن ہوں۔‘ عبدالرحمان کے والدین اپنے بیٹے کے ان الفاظ سے یہی مطلب لیتے ہیں کہ وہ مسلمان ہو چکا ہے۔ والدین کی شدید خواہش ہے کہ ان کے بیٹے کا نیا مذہب اس کی جان بچانے کا سبب بن جائے۔ ان کی یہ خواہش بالکل بے جا نہیں ہے، کیونکہ لوگوں کو اغوا کرنا اور پھر انہیں سزائے موت دے دینا، یہ کام دولتِ اسلامیہ کے جنجگجوؤں کے ہر روز کے جنگی ہتھکنڈے ہیں۔ والدین کو یہ خواہش رکھنی چاہیے کہ ان کے بیٹے کا ’پیٹر کسیج‘ سے ’عبدالرحمان کسیج‘ بن جانا اس کے کام آ جائے۔
عبدالرحمن

ای پیپر دی نیشن