متحدہ، پی ٹی آئی کے استعفے: پہلے سپیکر رولنگ دیں پھر فیصلہ کریں گے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی مومنٹ کے ارکان پارلیمنٹ کے استعفوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے وزیراعظم‘ چیئرمین سینٹ‘ سپیکر قومی اسمبلی ، قائد حزب اختلاف، پی ٹی آئی ،آیم کیو ایم سمیت دیگر تمام فریقین کو دوبارہ نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ماہ میں جواب طلب کرلیا ہے، عدالت نے تمام درخواستیں سماعت کیلئے منظور کرلیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سپیکر سمجھتے ہیں کہ ارکان اسمبلی کے واپس آنے کے بعد استعفے غیر موثر ہو چکے ہیں تو وہ رولنگ دیں فاضل عدالت اس کا جائزہ لیکر آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ جاری کرے گی۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو درخواست گزار سید ظفر علی شاہ نے موقف اختیار کیا کہ یہ سنگین اور اہم نوعیت کا معاملہ ہے کسی معاملے میں کارروائی اور سپیکر کا اختیار دو الگ معاملات ہیں سپیکر کا اختیار انتظامی معاملہ ہے استعفوں کا معاملہ ان چیمبر ہوا، پارلیمنٹ کی کارروائی سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا فاضل عدالت مداخلت کا اختیار رکھتی ہے۔ جسٹس امیر .انی مسلم نے کہا کہ سپریم کورٹ کو یہ دیکھنا ہو گا کہ اگر پارلیمنٹ سے متعلق کسی معاملے میں کارروائی نہ ہوئی ہو تو عدالت مداخلت کی مجاز ہے یا نہیں، جب تک سپیکر کوئی حکم جاری نہ کرے سپریم کورٹ کیسے مداخلت کر سکتی ہے ؟ اس پر ظفر علی شاہ نے کہا کہ آٹھ ماہ سے استعفے سپیکر کے پاس ہیں وہ سوئے رہے تو کیا عدالت کوئی کارروائی نہیں کرے گی؟ ظفر علی شاہ نے استدعا کی کہ عدالت ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر دے جس پر چیف جسٹس نے کہا ہائیکورٹ نے کسی کو ریلیف نہیں دیا بلکہ درخواست خارج کی ہے ہم کس چیز کے خلاف حکم امتناعی جاری کریں۔ تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے پی ٹی آئی کے 19 ارکان قومی اسمبلی کی طرف سے پیش ہوئے اور کہا کہ ارکان اسمبلی واپس آ چکے ہیں پارلیمنٹ میں ارکان کی واپسی پر یہ معاملہ غیر موثر ہو چکا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر معاملہ غیر موثر ہو چکا ہے تو سپیکر کو فیصلہ کرنے دیا جائے وہ اپنی رولنگ دیں، حامد خان نے کہا کہ اس وقت سپیکر موجود نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپیکر کا دفتر تو موجود ہے۔ حامد خان نے کہا کہ کچھ ارکان اسمبلی کو نوٹس موصول نہیں ہوئے اس پر عدالت نے سپریم کورٹ آفس کو دوبارہ ہ نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں جس نے جواب دینا ہو گا دے دے گا جو دلچسپی نہیں رکھتا ہم انہیں بیان دینے کے لیے نہیں کہہ سکتے ۔ ظفر علی شاہ نے کہا کہ96 ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ اعتزاز احسن اور قائد حزب اختلاف کو فریق بنانا ضروری تھا کیونکہ یہ پارلیمنٹ کے اہم کردار ہیں قائد حزب اختلات خورشید شاہ نے بیان دیا تھا کہ استعفے منظور نہیں ہوئے۔ سینٹ کے قائد حزب اختلاف بیرسٹر اعتزاز احسن قائد ایوان راجہ ظفر الحق کی طرف سے پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ اس معاملے میں ہمارا کوئی کردار نہیں بنتا ہمیں غیر ضروری طور پر فریق بنایا گیا ہے استعفوں کے معاملے پر چیئرمین نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ سید ظفر علی شاہ نے کہا کہ ایم کیو ایم کے ارکان کہہ رہے ہیں کہ انہیں مستعفی ارکان سمجھا جائے لیکن سپیکر اور چیئرمین سینٹ انہیں رکن رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ‘ شاہد اورکزئی اور دیگر کی درخواستیں سماعت کے لئے منظور کر لیں۔ اگلی سماعت پر مرکزی مقدمے کے ساتھ لگانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی سے بھی جواب طلب کیا ہے کہ بتایا جائے کہ مستعفی ارکان کے استعفے منظور کئے گئے یا نہیں یا یہ غیر موثر ہو چکے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے ارکان سے جواب طلب کیا گیا ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ کیا سپریم کورٹ کو سپیکر یا چیئرمین سینٹ کے پاس پروسیڈنگ پینڈنگ ہونے کے باوجود مداخلت کا اختیار ہے یا نہیں‘ ارکان رکن اسمبلی رہے یا نہ رہے اس کا فیصلہ کون کرے گا۔ جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ جب سپیکر اور چیئرمین سینٹ کے پاس استعفے آگئے تھے وہ رکھ کر کیوں بیٹھے ہیں اس کا فیصلہ کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ استعفے غیر موثر ہو چکے ہیں تب بھی اس کا فیصلہ تو کیا جاتا۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ اگر استعفے آرٹیکل 64 کے تحت دئیے گئے ہیں تو دونوں جماعتوں کے ارکان رکن پارلیمنٹ نہیں رہے۔ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے ارکان اگر مستعفی ہو چکے ہیں تو استعفے منظور کیوں نہیں ہوئے۔ پارلیمنٹ کی کارروائی آرٹیکل 69 کے تحت عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اس وقت تک عمل دخل نہیں کر سکتی جب تک سپیکر تعین نہ کر لے۔ تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے مئوقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی اجلاس میں شریک ہو چکے اب استعفوں کا معاملہ نہیں رہا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...