بینیٹو مسولینی اٹلی کا ایک صحافی تھا جس نے ملک کی تاریخ میں سب سے کم عمر وزیراعظم بننے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ فاشسٹ نظریہ کا خالق بھی تھا اور اٹلی میں انقلابی اصلاحات کے ذریعے ملک کو جنگ عظیم کے فوجی اثرات سے باہر نکالنے کے لیے کوشاں تھا۔ موسولینی نے اقبال کے یورپ کے دورہ کے دوران ان سے ملاقات کی درخواست کی۔ علامہ اقبال نے 27 نومبر 1931 کو موسولینی سے ملاقات کی۔ موسولینی نے اقبال سے کہا کہ مجھے کوئی انوکھا مشورہ دیں جو اٹلی کے حالات کے مطابق ہو۔ اقبال نے فرمایا کہ ہر شہر کی آبادی کی حد مقرر کر دو اور اس کو اس سے تجاوز نہ کرنے دو۔ اس سے زیادہ آبادی کے لیے مزید بستیاں مہیا کی جائیں اور نئے شہر آباد کیے جائیں۔ موسولینی نے کہا کہ اس کی کیا وجہ ہے۔ تو علامہ نے جواب دیا۔ شہر کی آبادی جس قدر بڑھتی ہے اس کی تہذیبی اور اقتصادی توانائی بھی کم ہوتی ہے۔ ثقافتی توانائی کی جگہ محرکات شر لے لیتے ہیں۔ مسولینی کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ کر اقبال نے فرمایا کہ یہ میری ذاتی رائے اور نظریہ نہیں بلکہ میرے رسولؐ نے تیرہ سو سال پہلے یہ مصلحت آمیز ہدایت جاری فرمائی تھی کہ مدینہ کی آبادی جب ایک حد سے تجاوز کر جائے تو مزید لوگوں کو آباد ہونے کی اجازت نہ دی جائے اور نیا شہر آباد کیا جائے۔ موسولینی اس حدیث مبارکہ کو سن کر اس قدر حیرت میں گم ہوا کہ بے ساختہ کرسی سے اُٹھ کے کھڑا ہو گیا اور میز پر دونوں ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ یہ کتنا خوبصورت خیال ہے۔ یہ حکیم الامت تھے جن سے دوسری قوموں کے لیڈرز بھی مشورہ لیتے تھے اور اس پر عمل کرتے ہوئے بھی کسی قسم کی شرمندگی کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم مردہ پرست بھی نہیں رہے۔ مردہ پرست ہوتے تو اقبال اور قائد اعظم کی تعلیمات کو پس پشت نہ ڈالتے۔ پاکستان کے اندر شہروں کی بڑھتی آبادی پر بات لمحہ فکریہ سے آگے نکل چکی ہے۔ دنیا میں قوموں کی ترقی کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ آنے والے سالوں کی منصوبہ بندی کر کے قدم اٹھاتے ہیں کہ آنے والے سالوں میں کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ ان کے فیصلے وقتی اور مفادات پر مبنی نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے منصوبہ جات حکومتوں کے ختم ہونے کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم پورے صوبے کا بجٹ ایک شہر پر لگا دیتے ہیں۔ جس سے دیہی آبادی میں سہولیات کا قحط پڑ جاتا ہے۔ تعلیم ، صحت اور روزگار حاصل کرنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ یہ حق جب حکومت لوگوں کو ان کے علاقوں میں فراہم نہیں کرتی تو یہ لوگ شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ لوگوں کی شہروں کی طرف بڑھتی ہوئی نقل مکانی سے طرح طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ جس سے ثقافتی سرگرمیوں کا ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو چکا ہے۔نئی بننے والی ہاوسنگ سوسائیٹز شہروں کے گرد زرعی زمینوں کو ختم کر کے تعمیر کی جا رہی ہیں۔ اور شہروں کے اندر پلازا کلچر کی وجہ سے پارک اور سبزہ زار ختم ہو رہے ہیں، درخت کٹ چکے ہیں اور ان کی جگہ لوہے اور کنکریٹ کے جنگل اور فائبر کے ڈائناسورز نے لے لی ہے۔ جس سے نہ صرف آنے والے وقتوں میں غذائی قلت پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی سے پینے کا صاف پانی اور سانس لینے کے لیے تازہ ہوا کمیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ بے ہنگم ٹریفک اور ٹریفک کے بڑھتے حادثات بھی شہروں میں بڑھتی آبادی کی وجہ سے ہیں۔ شہروں کی بڑھتی آبادی اور مسائل سے ہر شخص اپنی زندگی میں اس قدر الجھ گیا ہے کہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا جذبہ بھی ان بلند و بالا عمارتوں اور مشینی انسانوں اور مکینیکل سوچوں کے درمیان دم توڑ گیا ہے۔ اخلاقی قدروں کو زاول ہے۔ نصیر احمد ناصر اپنی ایک نظم "امیگریشن" کی آخری چند سطروں میں اس المیے کو یوں بیان کرتے ہیں:
آلودگی ماحول کی، اندر دلوں میں اور ذہنوں میں
سرایت کر چکی ہے
جسم زندہ ہیں ہمارے روح لیکن مر چکی ہے
چاہتیں مشروط ہیں زر سے
زوالِ زیست کے آثار پختہ ہیں
محبت اب بڑا کمزور رشتہ ہے
حضورؐ کے جس فرمان کی نشاندہی اقبال نے فرمائی تھی اس پر پاکستان میں عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آنے والے برسوں میں مزید مسائل کا شکار ہونے سے بہتر ابھی کوئی منصوبہ بندی کر کے حکمت عملی ترتیب دی جائے اس لیے کہ کم آبادی والے شہروں میں وسائل کی تقسیم بہتر انداز میں کی جا سکتی ہے۔ تربیتی ، اصلاحی اور فلاحی کام آسانی سے کیے جا سکتے ہیں۔ ہر شہر میں موجود صحت اور تعلیم کی سہولیات اور دیگر بنیادی شہری سہولیات بھی اس کی آبادی کے لحاظ سے بہتر طور پر مہیا کی جا سکتی ہیں اور ماحولیاتی آلودگی اور طبقاتی تفریق سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ ثقافتی سرگرمیوں اور قدروں کو مرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ شہریوں کو بنیادی ضروریات کے لیے بڑے شہروں کی طرف رخ نہیں کرنا پڑیگا۔ ہر شہر کے اندر روزگار کے مواقع اس کے اندر موجود لوگوں کی دسترس میں ہوں گے۔ بہتر منصوبہ بندی کے لیے ہمیں شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ کو روکنا ہو گا اور بڑھتی ہوئی آبادی کو سمونے کے لیے شہروں کے ارد گرد کارآمد زمینوں کی بجائے نئی بستیوں کی صورت میں بنجر، بے کار اور غیر آباد زمینوں کو آباد کرنا ہو گا۔ اس میں ہماری ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔