ملک میں ایک بار پھرچومکھی لڑائی لڑی جاری ہے۔جنوری 2015ء میں نیشنل ایکشن پلان پرملک کی اشرافیہ اور پارلیمانی ٗ غیر پارلیمانی سیاسی قوتوں کے مابین جو اتفاق رائے پیدا ہوا تھا وہ جلد ہی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ٗنیپ کی زندگی پانی کا بلبلہ ثابت ہوئی۔ چند ماہ بعد ہی یوں لگا کہ فوج اور سیاسی قیادت ایک پیج پر نہیں بلکہ اپنے اپنے پیج پر ہیں۔نیم بروں نیم دروںانتہائی محدود مدت پرمشتمل قومی اتفاق کے بعد اب ہر ایک اپنی اپنی راگنی الاپ رہا ہے۔ ہر ادارہ ٗہر شخص اپنے اپنے محاذوں پر اپنی اپنی سرشت میںبرسرپیکار ہے اور اپنے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے متحرک ہے۔اچنبھے کی بات نہیں ٗنفسا نفسی کی یہ ریت بہت پرانی ہے ٗہم کبھی ایک تھے ہی نہیں تواب ایک کیسے اورکیونکر ہوجائیں گے۔ 1947ء سے لے کر تادم تحریریہی ایک طرفہ تماشاہو رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ’’ آپریشن ضرب عضب‘‘ اگر حکومت کی مرضی اور اجازت سے شروع ہواتھا تو اس پر حکومت کی سرد مہری اور لاتعلقی کا کیا مطلب نکالا جائے۔ اگر فوجی اور سیاسی قیادت کے درمیان اتفاق رائے مان بھی لیا جائے تو پھرفوجی سپہ سالار توعیدیںدہشت گردوں سے برسرپیکار جوانوں کے ساتھ مناتا ہے اور ملک کا سیاسی سپہ سالارعید منانے لندن کیوں چلاجاتا ہے؟جوان ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے نجات دلانے کے لئے بالائی علاقوں میں خون کے نذرانے پیش کررہے ہیں لیکن سیاسی قیادت شہیدوں کے خون سے بے نیاز ہوکرغیر ملکی نجی دوروں کے مزے لوٹتی پھر رہی ہے ۔ اس سے تو لگتا ہے کہ عسکری اور سیاسی قیادت میں اتفاق رائے کی باتیں مبنی بر حقیقت نہیں۔اوریوں لگتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ فوج اورفوجی افسر شاہی کا فیصلہ تھا جو سیاسی قیادت اور سول افسر شاہی کوطوعاًوکرہاًقبول کرنا پڑا اور اب وہ اپنے قول اورعہدسے پیچھے ہٹنے کی راہیں تلاش کرتی پھررہی ہے۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنی غیرمعمولی حب الوطنی کی شہرت کے باوجود بھارت کے دوست سمجھے جاتے ہیں اور انہوں نے کئی بار اس کے کئی واضح اشارے بھی دئیے ہیں ٗکبھی پاک بھارت دوستی کے بیان دے کر ٗکبھی لپک کر کسی سے مصافحہ کرکے ٗکبھی کسی کی دعوت میں دوڑے چلے جانے سے اور کبھی کسی کو ہاتھ لہرا کر خیرسگالی کا پیغام دے کر۔ وہ مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو اپنا بڑابھائی سمجھتے ہیں اور وہ جو باربار پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف زہراگلتا ہے ٗ میاں صاحب اسے بھی نظرانداز کرتے ہیں اور بڑے بھائی کا ادب ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اینٹ کا جواب پتھر سے دینا مناسب نہیں سمجھتے۔ بھارت کنٹرول لائن پر گولے برساتاہے تو وہ پھر بھی امن کی مالا جپتے رہتے ہیں اور گولی کے جواب میںدشمن کی ماں کے لئے شالوں اور ساڑھیوں کے تحفے بھیجتے رہتے ہیں۔دشمن گولے برساتا ہے ٗ ہم پھر بھی پھول پیش کرتے ہیں۔میاں نواز شریف نریندر مودی کے خلاف زبان تو نہیں کھولتے لیکن کشمیرپرلگتا ہے کہ انہوں نے اپنے سابقہ رویے اور موقف پربالآخر یوٹرن لے ہی لیا ہے یا انہیں اپناروایتی موقف بدلنے پر مجبور کردیاگیا ہے۔ کل تک وہ بھارت سے دوستی پروان چڑھانے کی باتیں اور کوششیں کرتے رہتے تھے اور بھارت سے تجارت کو دونوں ملکوں کی معاشی ترقی کی ضمانت قرار دیتے تھے لیکن اب وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو صحیفہ قراردینے لگے ہیں اور استصواب رائے کی بات کرنے لگے ہیں ٗ ان کی سوچ میں یہ انقلابی تبدیلی کیسے آئی اوراس کا سبب کیا بنا ٗ خدا بہتر جانتا ہے۔ اگر مسئلہ کشمیر پر حالیہ موقف وزیراعظم میاں نواز شریف کا اپنا ہے تو اسلام آباد ہو ٗلندن ہو یا نیویارک ٗجب وہ کشمیر پر بات کرتے ہیں توکشمیری ہونے کے باوجود ان کا لب ولہجہ اتنا بجھا بجھا کیوں ہوتا ہے اور ان کی باڈی لینگوئج ان کے الفاظ کا ساتھ کیوں نہیں دیتی ٗایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ یہ باتیں بادل ناخواستہ کررہے ہوں ٗ جیسے وہ بامرمجبوری ہاتھ میں تھمایا کوئی اسکرپٹ پڑھ رہے ہوں۔ملکی افواج اور سیاسی افواج کے سپہ سالاروں کے درمیان مہینے میں پانچ پانچ ٗچھ چھ ملاقاتوں کی تازہ روایت کے باوجود نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ دونوں کے مابین کوئی نہ کوئی ایسا نقطہ ہے جس پر دونوں ایک نقطے پر نہیں ہیں۔
دوسری طرف ملک کی سیاسی جماعتیں بھی ’آپریشن ضرب عضب‘ ہو کہ ’’آپریشن کراچی‘‘یا معاشی دہشت گردی کے خلاف جنگ ٗ ایک نقطے پر نہیں ہیں۔ملک میں سات سال تک ’’میثاق جمہوریت ‘‘ کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا ٗاقتدار پر جمے رہنے کے تقاضوں اور فوج کے ساتھ تعلقات کار کے نئے زاویوںنے ملک کی سیاسی جماعتوں کو ایک نئی صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف میں سیاست واقتدار پر قبضے کی ایک خوف ناک جنگ چھڑی ہے اور میثاق جمہوریت کے عہدوپیمان میں بندھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون بھی نئے حالات میں ایک دوسرے کو مطعون ٹھہرا رہی ہیں۔اب تو یہ حال ہے کہ کبھی پیپلزپارٹی اپنی کالک نون لیگ کے چہرے پر مل دیتی ہے توکبھی نون لیگ اپنی کالک پیپلزپارٹی کے چہرے پر تھوپ دیتی ہے ٗ یہ نوشتہ دیوار تھا یا انہیں اس راہ پر کسی نے یا ان کے اپنے کرتوتوں نے دھکیل دیا ہے ٗیہ حقیقت ہے کہ دونوں کے درمیان فاصلے ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ کہنے والے تویہاں تک کہتے ہیں کہ فوج اور سیاسی قیادت میں بہت دوریاںہیں ٗجن سے ملک میںایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے ٗاب نئے حالات میں یہ خلا کون سی سیاسی جماعت پورا کرتی ہے ٗ اس کے لئے ہمیں زیاد دیرانتظار نہیں کرنا پڑے گا ٗکل ہونے والے معرکہ لاہور اور وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے بعدجو ہونا ہے وہ ہو کررہے گا۔